عقل کے اندھے

310

ہم ایک طویل عرصے سے گزارش کر رہے کہ سیاسی جماعتوں نے قوم کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔ یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ اہل وطن اپنی پارٹی سے نسبت رکھنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ شاید انہیں پاکستانی ہونا پسند نہیں وہ اپنی پارٹی سے اندھی محبت کرتے ہیں۔ جس نے انہیں بھی اندھا کردیا ہے اللہ جسے اندھا کرتا ہے بصارت لے کر بصیرت سے نواز دیتا ہے مگر سیاسی اندھے عقل کے بھی اندھے ہوتے ہیں پاکستان کا ہر شہری سیاست سے خاص دلچسپی رکھتا ہے وہ سیاست کے موضوع پر سیاسی رہنمائوں سے بھی زیادہ بول سکتا ہے۔ دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن کا کھانا کوک کے بغیر ہضم نہیں ہوتا مگر پاکستان میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو سیاست پر گفتگو نہ کریں تو ان کا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ پاکستان اور امریکا کے رہنمائوں میں کوئی قدر مشترک ہو یا نہ ہو مگر عوام میں ایک قدر مشترک پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ انتخابی امیدوار کتنا بھی نا پسندیدہ کیوں نہ ہو اپنا ووٹ پارٹی کے امیدوار ہی کو دیتے ہیں۔ بھٹو مرحوم سے محبت کرنے والے پیپلز پارٹی ہی کے امیدوار کو ووٹ دیں گے۔ نواز شریف کے چاہنے والے اسی کو ووٹ دیں گے خواہ وہ ناپسندیدہ ہی کیوں نہ ہو۔ تحریک انصاف کی حکومت نے عوام کا جینا اجیرن کردیا ہے مگر عمران خان کے چاہنے والے ووٹ تحریک انصاف کے امیدوار ہی کو دیں گے۔ کیونکہ ان کی نظر میں مہنگائی اور بے روزگاری کا رونا بے معنی ہے۔ وہ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کی طرح ایک رٹا رٹایا بیان ہی دہراتے رہتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف کرپشن کا کوئی کیس نہیں۔ لاکھ سمجھائو کہ عمران خان کسی سرکاری عہدے پر فائز ہی نہیں رہے ہیں تو کرپشن کیسے کرتے اقتدار کے خاتمے کے بعد ہی معلوم ہوگا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں اس حقیقت کا کسی کو ادارک نہیں کہ عمران خان نے مہنگائی کے سونامی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے مگر عمران خان کی صحت اور سوچ پر کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہے۔ جنرل ایوب خان کے طویل دور میں مہنگائی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا البتہ آخری دنوں میں آٹے کی قیمت میں چند روپے کا اضافہ ہوا تھا۔ اضافہ اتنا معمولی تھا کہ عوام نے اس پر احتجاج تک نہ کیا مگر حبیب جالب چلا اٹھے بیس روپے من آٹا ہے پھر بھی سناٹا ہے۔ اگر عمران خان ایوب خان کی طرح مافیا کو نکیل ڈالیں تو قوم پر احسان ہوگا۔ حالات و واقعات سے لگتا کہ وہ کسی اور پر احسان کررہے ہیں۔
سکندر مرزا کی اہلیہ نے جنرل ایوب کو یہ باور کرایا تھا کہ ایوان اقتدار کے خسرو ملک سے ذرا سی بھی محبت نہیں کرتے اگر انہیں نکیل نہ ڈالی گئی تو پاکستان کی تباہی یقینی امر ہے۔ کہتے ہیں جنرل ایوب خان نے اس کے تجزیے سے متاثر ہوکر مارشل لا لگایا تھا۔ جنرل ایوب خان کی پالیسی پر اعتراض کیا تھا کہ پولی ٹیکنک کے تعلیمی ادارے قائم کرنا قومی خزانے کا ضیاع ہے۔ مگر جنرل ایوب خان نے ان پر کوئی توجہ نہ دی۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کا رویہ قوم کے ساتھ انتہائی سفاکانہ ہے۔ مہنگائی نے قوم کے ہرفرد کو اتنا مفلس کردیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا بھی نہیں کھلاسکتا۔ تعلیم کے زیور سے کیسے آراستہ کرسکتا ہے اور یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ جس قوم کے بچے تعلیم سے آراستہ نہیں ہوتے وہ ملک کی خوشحالی اور استحکام میں اپنا کردار ادا کرنے کے اہل نہیں ہوتے۔ تحریک انصاف کی حکومت کی ناکامی کاسب سے بڑا سبب یہی ہے کہ اس نے نااہلیت کا جمعہ بازار لگایا ہوا ہے۔ عمران خان کی کابینہ میں وہی لوگ دکھائی دے رہے ہیں جنہیں وہ چور، لٹیرا کہتے نہیں تھکتے تھے۔ عمران خان کہا کرتے تھے کہ حکمران چور ہو تو پوری حکومت چور بن جاتی ہے کیا خوب تجزیہ ہے ایسا ہی ہے اور ایسا ہی ہوا ہے۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ نیب شریف فیملی اور نواز لیگ کے رہنمائوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہوئی ہے مگر اسے جہانگیر ترین کی بدترین کرپشن دکھائی نہیں دیتی اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ سیاست میں آنے سے قبل جہانگیر ترین کی مالی حیثیت کیا تھی اور اب کیا ہے آمدن نہ ہونے کے باوجود وہ ملک کے امیر ترین شخص کیسے بن گئے۔