چین اور پاکستان کا گھیرائو یا لولی پاپ؟

228

سرد جنگ کے دوران ہی امریکیوں نے کمیونزم کے بعد مغرب کو درپیش چیلنجز کا تعین کر دیا تھا۔ خطرات اور اہداف کی نشاندہی میں کنفیوشس اور مسلم تہذیب اس فہرست میں بہت اوپر تھیں۔ انہی اہداف میں چین کا گھیرائو اور اسے ایک عالمی تہذیب اور طاقت بننے سے روکنا اولیں ترجیح تھی۔ ان کی بدقسمتی یہ تھی کہ پاکستان کے بغیر چین کا گھیرائو مکمل نہیں ہوسکتا تھا اور پاکستان چین کے ساتھ ہمالیہ سے بلند، شہد سے میٹھی اور سمندر سے گہری دوستی کے رشتے میں بندھ چکا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پاکستان نے ابتدا ہی میں یہ اندازہ کرلیا تھا کہ تاریخ میں گہری جڑیں رکھنے والے مسائل کی موجودگی میں بھارت کے ساتھ اس کی دوستی ریچھ کی دوستی ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ بھارت نظریاتی طور پر پاکستان کا مخالف ہے۔ وہ اسے ایک زخمِ دل کے طور پر تازہ رکھنا چاہتا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو واجپائی کو مینار پاکستان آکر پاکستان کو تسلیم کرنے کی اداکاری نہ کرنا پڑتی۔ اگر یہ اداکاری نہیں بھی تھی تب بھی بھارتیا جنتا پارٹی میں واجپائی، ایڈوانی اور جسونت سنگھ سمیت جس بھی قدآور سیاست دان نے پاکستان اور بانیان پاکستان کے بارے میں تحریر وتقریر کی صورت میں نرم گوشے کا اظہار کیا اسے بھارتیا جنتا پارٹی کی سیاست میں نشان عبرت بنا دیا گیا۔ یہاں تک کہ سیاست کے عجائب خانے میں پڑے پڑے یہ سیاست دان شمشان گھاٹ پہنچتے چلے گئے۔
امریکا کی بھرپور معاونت اور پشت پناہی سے نوے اور دوہزار کی دہائیوں میں واجپائی اور من موہن دور میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نارملائزیشن کی جو مشق کی گئی اس کا محور دونوں ملکوں کے درمیان تصفیہ طلب مسائل کا حل نہیں بلکہ تنازعات کی مینجمنٹ تھی اور اس کا حتمی مقصد پاکستان کو چین سے کاٹ کر بھارت کے ساتھ جوڑنا تھا تاکہ چین کے گھیرائو کا مقصد نہایت آسانی سے حاصل کیا جا سکے۔ ان کوششوں میں مسئلہ کشمیر کے حل کے قریب پہنچنے کے جو دعوے پہلے میاں نوازشریف اور بعد ازاں جنرل پرویز مشرف کرتے رہے ان کی ساری حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ کشمیر کو جوں کا توں رکھ کر پاکستان کو کشمیر سے الگ کرنا اور اسے سیاحتی حقوق دے کر بالکل اسی طرح مسئلے سے لاتعلق کیا جانا تھا کہ جس طرح مصر کو فلسطینیوں سے کاٹ کر محصور کر دیا گیا تھا۔ مصر کے فلسطین سے لاتعلق ہونے کا جو عمل برسوں پہلے شروع ہوا تھا وہ اب متحدہ عرب امارات اور سوڈان سے سعودی عرب کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ نوازشریف اور جنرل مشرف کے دور میں اگر کشمیر پر سمجھوتا ہوتا تو سر ی نگر پر بھارت کے کنٹرول کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرنے کے بعد اس کا اگلا مرحلہ بھارت کی حتمی بالادستی کی توثیق ہوتا۔ ان عشروں میں پاکستان میں جو داخلی اتھل پتھل نظر آتی ہے اس کا گہرا تعلق اس کشمکش سے بھی رہا ہے۔
جنوبی ایشیا میں بھارت کی بالادستی ایک ایٹمی پاکستان مضبوط فوج موجودہ آبادی اور جغرافیائی ہیئت کے ساتھ ممکن تو تھی مگر بالادستی کا مزہ کرکرہ ہو کر رہ جاتا اس لیے امریکا، بھارت اور کئی بردار اور غیر برادر ملکوں نے مل جل کر پاکستان کو حالات کی موجودہ دلدل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کی
معیشت کی بربادی اور یہاں کئی تحریکوں کا آغاز واحیاء اسی سوچ کا شاخسانہ تھا۔ اب جبکہ سی پیک کی صورت میں پاکستان مستقبل میں اپنے لیے راہ عمل کا اعلانیہ اظہار کر چکا ہے مگر پاکستان کو چین سے کاٹ کر بھارت کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں اب بھی جاری ہیں۔ اسی مقصد کے لیے بھارت کے ساتھ امریکا آسڑیلیا اور جاپان کا اسٹرٹیجک اتحاد بنا دیا گیا ہے۔ پاکستان کی طرح جنوب مشرق ایشیائی ملکوں میں جاری کشمکش اور تحریکوں کے پیچھے بھی یہی عالمی سیاست، ضرورت اور تقاضے صاف جھلک رہے ہیں۔ اب جبکہ بھارت اس وقت چین کے ہاتھوں مجبور اور عاجز ہو چکا ہے امریکا نے چین کے ساتھ بیسک ایکسچینج اینڈ کو آپریشن ایگریمنٹ کے نام سے دفاعی معاہدے کی ایک اور قسط عالمی اسکرین پر ٹیلی کاسٹ کر ادی۔ اس کے لیے امریکی سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو اور سیکرٹری دفاع مارک ایسپر دو جمع دو مذاکرات کے لیے بہ نفس نفیس بھارت پہنچے جہاں انہوں نے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر اور وزیر دفاع راجناتھ سنگھ سے مذاکرات کر کے ملٹری ٹیکنالوجی، سیٹلائٹ ڈیٹا اور دیگر معلومات کے تبادلے کا معاہدہ کیا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا معاہدہ نہیں بلکہ اس نوعیت کا پہلا معاہدہ 2002میں ہوا تھا جسے جنرل سیکورٹی آف ملٹری انفارمیشن ایگریمنٹ کا نام دیا گیا تھا۔ 2016 میں اس راہ پر ایک اور پیش قدمی کرتے ہوئے دونوں ملکوں میں لاجسٹکس ایکسچینج میمورنڈم آف ایگریمنٹ کے نام سے ایک اور معاہدہ ہوا تھا۔ 2018 میں اس کمیونیکیشن کمپیٹی بیلٹی اینڈ سیکورٹی ایگریمنٹ کے نام سے دفاعی تعاون کا ایک اور معاہدہ ہوا۔ حالیہ معاہدہ بھارت کو چین کے خلاف عملی حمایت کا لولی پاپ تھما کر امریکا میں برپا صدارتی معرکے میں فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔
ڈولتی ہوئی امریکی حکومت بھارت سے چینی خطرے کا ہوا کھڑا کرکے معاہدے کر رہی ہے۔ یہ بھارتی ووٹروں کا دل لبھانے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے مگر یہ شراکت داری کے طویل سفر کا اہم پڑائو بھی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ انتخابی معرکہ افغانستان سے انخلا اور چین کے فوجی اور اقتصادی گھیرائو کے نام پر نام پر جیتنا چاہتا ہے۔ اسی لیے بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدات کے اس کھیل کی چوتھی قسط میں روئے سخن چین کی جانب رہا۔ مائیک پومپیو نے یہ کہنا ضروری سمجھا کہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی دوست نہیں۔ امریکا علاقائی سالمیت، خودمختاری اور آزادی کے تحفظ میں بھارت کی پوری مدد کرے گا۔ پاکستان علاقائی سیاست میں چین کے ساتھ جم کر کھڑا ہے اور بھارت کو آگے رکھ کر چین کے گھیرائو کا مطلب پاکستان اور چین کا مشترکہ گھیرائو ہے۔ امریکا نے بھارت کو چین کے مقابل کھڑا کرنے کی جو اسکیم تیار کی ہے اس میں بھارت خود سپردگی کے انداز میں امریکا کے آگے بچھا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال خود بھارت میں کئی سوالیہ نشانات کی زد میں ہے اور دی ہندو اخبار کی رپورٹ میں بھارتی کے دفاعی تجزیہ نگاروں نے دفاعی تعاون اور تزویراتی شراکت داری کے اس سفر میں محتاط قدم اُٹھانے کا مشورہ دیا ہے۔ چین بھارت تصادم کی صورت میں امریکا بھارت کی کس حد تک عملی مددکو آئے گا؟ یہ بھارتی تجزیہ نگاروں کے لیے بھی ایک سوال ہے۔ وہ پورے شرح صدر کے ساتھ اس کا جواب اثبات میں دینے سے قاصر ہیں۔