اسلام آباد( میاں منیر احمد) سابق وزیر اعظم نواز شریف حکومت کی کوششوں سے نہیں بلکہ موجودہ حکومت ختم ہونے پر پاکستان آئیں گے‘ یہ فیصلہ شریف خاندان کا ہے اور ن لیگ کا اس فیصلے سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ شریف خاندان نواز شریف کی وطن واپسی سے قبل ملک میں سازگار سیاسی ماحول چاہتا ہے‘ جسارت کو یہ بات شریف خاندان کے انتہائی قریبی ذریعے نے بتائی۔جسارت کی اپنی تحقیقات کے مطابق 33 ممالک ایسے ہیں جن کے ساتھ برطانیہ کے پاس حوالگی کا معاہدہ نہیں ہے، ان ممالک میںپاکستان بھی شامل ہے۔ ملک کے اہم ترین باخبر اور سفارتی امور پر نظر رکھنے والے افراد کی رائے میں برطانیہ کے ساتھ مجرموں کی تحویل کا معاہدہ نہ ہونے سے حکومت کا کیس کمزور ہے اور اگر کیس مضبوط ہوتا تو مشیر داخلہ حکومت برطانیہ کو براہ راست خط لکھتے یا قانونی درخواست بھجواتے ،انہوں نے تو نواز شریف کی واپسی کے لیے برطانوی رکن پارلیمنٹ کو خط لکھا ہے کہ وہ حکومت پاکستان کو اس کیس میں اخلاقی حمایت فراہم کریں۔اگر دونوں ملکوں کے مابین مجرموں یا
ملزموں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ ہوتا تو بھی حکومت پاکستان کوانٹرپول کو درخواست دینی تھی اور انٹرپول کی مدد سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن بنائی جانی تھی لیکن اس کیس میں ایک قانونی نکتہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی عدالتوں نے نواز شریف کی سزا پر انہیں ضمانت پر علاج کے لیے رہا کیا ہے اور قانون کی نظر میں ضمانت کی صورت میں سزا معطل سمجھی جاتی ہے۔ نواز شریف کی وطن واپسی کے لیے حکومت پاکستان کو برطانیہ کی عدالتوں میں باقاعدہ رٹ دائر کرکے ثابت کرنا ہوگا کہ نواز شریف عدالتوں کے حتمی فیصلے کے بعد مجرم ثابت ہوئے ہیں تاہم برطانیہ کا اپنا قانون اورروایات ہیں اور وہ کسی ایسے مطالبے کو تسلیم نہیں کرتا کہ اسے یقین ہوکہ ملزم کو اپنے ملک میں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جائے گا یا سزائے موت دی جائے گی۔ جسارت کے ذرائع کے مطابق حکومت برطانوی عدالت میں رٹ دائر کرنے پر غور کر رہی ہے تاہم یہ ایک ٹیسٹ کیس ہوگا ۔نواز شریف کیس میں حال ہی میں وائرل ہونے والے ہیلری کلنٹن کے انٹرویو کا بھی بہت گہرا اثر ہے۔ اس انٹرویو میں ہیلری نے ڈیپ اسٹیٹ کے سوال کی اپنے نکتہ نظر سے وضاحت کی ہے‘ حکومت نے نواز شریف سے قبل اسحاق ڈار کی وطن واپسی کی کوشش کی تھی مگر انٹرپول نے ہی حکومت کی اس درخواست پر غور سے معذرت کرلی تھی اور یوں یہ کوشش ابتداء میں ہی دم توڑ گئی‘پاکستان کے حالیہ سیاسی حالات کے باوجود نواز شریف کے ساتھ ماضی میں بھی رابطے ہوئے تھے‘ اس وقت بھی بلواسطہ رابطے ہیں‘ ن لیگ میں رابطوں کے لیے شاہد خاقان عباسی‘ خواجہ آصف‘ احسن اقبال کے بعد اب سلیمان شہباز کے ٹیلی فون آن رہتے ہیں۔ نواز شریف کی وطن واپسی کے امکان پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ نواز شریف جنوری تک ملک کی جیل میں ہوں گے ۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس موضوع پر جسارت سے گفتگوکرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف کو واپس لانے کے لیے وزیراعظم عمران خان کے موقف میں وزن ہے، ہم نے برطانیہ سے درخواست کی ہے کہ اپنے قانون کو سامنے رکھتے ہوئے کارروائی کریں، برطانیہ کو سمجھنا چاہیے کہ نواز شریف باہر تشریف کیوں لے گئے۔ وفاقی وزیر غلام سرور خان نے کہا ہے کہ ملک دشمن نواز شریف کو واپس لانے کے لیے بھرپور سفارتی تعلقات استعمال کیے جائیں گے، نواز شریف پر اور بھی مقدمات درج کیے جائیں گے جبکہ ان کی اولاد کو بھی وطن لائیں گے،اداروں کے خلاف پروپیگنڈا کر کے نواز شریف نے ملک دشمنوں کو خوش کیا، نواز شریف کے خلاف غداری کا مقدمہ دائر کرنا عوامی مطالبہ ہے۔ عدالت عظمیٰ کے سینئر قانون دان‘ بلوچستان کے سابق ایڈووکیٹ جنرل‘ صدارتی تمغہ حسن کاکردگی یافتہ قانون دان‘ پاکستان پریس کونسل کے سابق چیئرمین صلاح الدین مینگل نے جسارت کو بتایا کہ حکومت پاکستان اور برطانیہ کے مابین ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے جس کے ذریعے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن بنائی جاسکے‘ لہٰذا حکومت کی کوششوں کے نتیجے میں نواز شریف کی وطن واپسی ممکن دکھائی نہیں دیتی۔سابق نگران وفاقی وزیر اور سینیٹر مصدق ملک نے بتایا کہ حکومت نے برطانیہ سے نواز شریف کو پاکستان بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے ،نواز شریف کے پاس برطانوی قوانین کے تحت تمام حقوق ہیں،برطانیہ کسی صورت پاکستان کا دباؤ برداشت نہیں کرے گا۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان نے بتایا کہ نواز شریف اس حکومت کے ختم ہوجانے کے بعد فوری طور پر پاکستان واپس آجائیں گے۔سابق وفاقی وزیر مسلم لیگ(ض) کے صدر محمد اعجاز الحق نے بتایا کہ حکومت پاکستان اور حکومت برطانیہ کے مابین مجرموں کی تحویل کا کوئی معاہدہ نہیں ہے اور حکومت میں نواز شریف کو واپس لانے کی اہلیت بھی نہیں ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی اور برطانیہ سے فارغ التحصیل ماہر انتھراپولوجی اور پاکستان مسلم لیگ(ج) کے ٹریڈر ونگ کے سربراہ بابر جمال نے بتایا کہ حکومت کی کوششوں کے نتیجے میں نواز شریف کی وطن واپسی کا امکان بہت کم ہے کیونکہ حکومت نے خود ملکی عدالت میں نواز شریف کی ضمانت کی درخواست پر اپنی آمادگی ظاہر کی تھی اور وجوہات کچھ بھی ہوں حکومت نے ضمانت کی درخواست کی مخالفت نہیں کی تھی۔عدالت عظمیٰ کے سینئر قانون دان اور پنجاب بار کے رکن قوسین فیصل مفتی نے کہاکہ نواز شریف کی وطن واپسی کے لیے حکومت کو باقاعدہ سنجیدہ ہونا پڑے گا اور برطانیہ کے قانون کے روبرو ثابت کرنا ہوگا کہ نواز شریف کی وطن واپسی کیوں ضروری ہے ،محض بیانات کے ساتھ یہ کام نہیں ہوگا، برطانیہ اپنے قانون اور روایات کے مطابق یہ کیس دیکھے گا، فی الحال حکومت میں سنجیدگی بھی نہیں دیکھی جارہی اور اہلیت کا بھی مسئلہ ہے۔ تحریک نوجوانان پاکستان اور کشمیر کے چیئرمین‘ سابق آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل کے صاحب زادے عبداللہ حمید گل نے بتایا کہ دونوں ملکوں کے مابین ایسا کوئی معاہدہ ہی نہیں ہے لہٰذا معاہدہ نہ ہونے سے یہ کام مشکل دکھائی دیتا ہے۔