ویانا حملے کو اسلام سے جوڑنے کی کوشش

220

فرانس کے صدر کو دنیا بھر میں رسوائی کے بعد الٹے سیدھے عذر پیش کرنے پڑے اور وہ معافی بھی مانگنے کو تیار نہیں بلکہ ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ اسی دوران ویانا میں یہودی عبادت گاہ پر حملہ ہو گیا اور تین یورپی ممالک نے آسٹریا سے اظہار یکجہتی کی آڑ میں حملوں کو اسلام سے جوڑنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے تو اسلام کے خلاف اپنی نفرت کا کھل کر اظہار کر دیا۔ وہ ویانا حملے پر آسٹریا کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ حملے پر تشویش ہے اور اسلامی دہشت گردی مشترکہ دشمن ہے۔ آسٹرین چانسلر گرس نے بھی اسے اسلام پسندانہ دہشت گردانہ حملہ قرار دیا ہے اس کا سبب یہ ہے کہ حملہ آور پر داعش سے تعلق کا الزام تھا اور یہ الزام بھی تھا کہ وہ داعش میں شمولیت کے لیے شام بھی گیا تھا۔ آسٹرین چانسلر، وزیر داخلہ اور پولیس چیف کے بیانات میں تضاد ہے۔ چانسلر گرس نے واضح طور پر کہا کہ یہ اسلام پسندانہ دہشت گردانہ حملہ تھا۔ لیکن وزیر داخلہ نہیمر کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم سباستیں کروز کے زیر صدارت اجلاس میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ہے۔ لیکن انہوں نے آسٹریا کو مختلف رنگ ونسل، ڈائیلاگ اور ایک دوسرے کے لیے جذبۂ احترام کا حامل ملک کہا اور کہا کہ یہ کام اور رویہ جاری رہے گا۔ 2 نومبر کے واقعات نے آسٹریا کو بلا کر رکھ دیا ہے لیکن ہم بحیثیت جمہوریہ اپنی آزادیوں، جمہوریت اور متحدہ طرز حیات کا دفاع کریں گے۔ اسی طرح ویانا پولیس چیف نے حملہ آور کی شناخت ظاہر کرنے سے انکار کیا ہے۔ ویانا میں یہودی تنظیم کا کہنا ہے کہ حملے کا معبدے سے کوئی تعلق نہیں وہ نشانہ نہیں تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک خاص طبقہ خصوصاً جرمن چانسلر معاملے کو اسلام مخالف رنگ دینے پر مصر ہے ابھی کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ویانا کی حکومت نیوزی لینڈ کے نقش قدم پر چلنے کا ارادہ رکھتی ہے اگر انہوں نے نفرت پھیلانے کی کوشش کی تو نفرت ان کے اپنے معاشرے کو نقصان پہنچائے گی۔ امریکا اور برطانیہ وغیرہ کے تجربات سے یہ ممالک سبق حاصل کر چکے ہیں۔