معیشت تباہی کے دہانے پر

302

پاکستان میں اب مقابلہ پیٹ اور سیاست کا شروع ہونے والا ہے۔ حکمرانوں نے اپنی ضد کی خاطر قوم کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ لوگ روٹی کو ترس رہے ہیں اور پوری حکومت صرف اس ادھیڑ بن میں ہے کہ کسی طرح اپوزیشن کو نیچا دکھایا جائے۔ شور اس قدر مچایا جا رہا ہے کہ قوم کو بھی کسی جانب دیکھنے کی فرصت نہیں۔ حکومت کی صفوں میں خود اکھاڑ پچھاڑ ہے اور مسلم لیگ ن میں پھوٹ کی خبریں دی جا رہی ہیں اور اپنے صوبے کے وزیر اطلاعات کو اچانک فارغ کرکے مرکز میں ترجمانی کرنے والی خاتون فردوس عاشق اعوان کو ذمے داری دے دی گئی۔ یہ سب گھبراہٹ کیوں ہے۔ چند روز قبل تو وزرا سے کہا گیا تھا کہ فیاض چوہان سے سیکھیں اب کیا سیکھیں۔ اصل معاملہ کچھ اور ہے۔ اب حکومت کے ہاتھ میں کوئی کنٹرول نہیں رہا ہے ہر چیز قابو سے باہر ہو چکی ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کو بتایا گیا کہ ملک میں گردشی قرضے 2300 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ بے لگام ہو گیا ہے صرف کے الیکٹرک اور پاکستان اسٹیل، سوئی سدرن کے 164 ارب روپے کے نادہندہ ہیں۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس کو بتایا گیا کہ نیب نے گزشتہ دنوں 9 ارب کی پلی بارگین کر ڈالیں اور خبر سامنے نہیں آنے دی گئی۔ اس امر پر کمیٹی میں تشویش کا اظہار کرکے اپنا فرض پورا کر لیا گیا۔ ایک کام بڑی خوبصورتی سے کیا گیا ہے کہ پاکستان اسٹیل کے ذمے واجب رقوم کا ذکر بھی زبردستی کر دیا گیا حالانکہ پاکستان اسٹیل کا معاملہ خود سرکار نے بگاڑا اور اب سوئی سدرن کے واجبات میں وہ بھی بار بار شامل نظر آتے ہیں۔ حکومت کے الیکٹرک کو تو سبسڈی بھی دیتی ہے اور پرانے واجبات بھی دلواتی ہے جو قومی پیداوار میں اضافے کا کام نہیں کرتی جبکہ اگر پاکستان اسٹیل کا قرضہ اتار کر حکومت پاکستان اسٹیل کو پیداوار کے قابل بنا دیتی تو یہ ادارہ اب تک اپنی استعداد کے مقابلے میں پچاس فیصد پیداوار تو کر رہا ہوتا۔ اس سے قطع نظر کہ یہ کیا سیاست ہے، گردشی قرضوں میں اضافے کا سارا اثر براہ راست قومی معیشت اور پیداوار پر پڑے گا اور سب سے زیادہ عوام متاثر ہوں گے۔ ہر ادارہ اپنے خسارے کو کم کرنے یا پورا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی اقدام کرے گا۔ مثال کے طور پر کے الیکٹرک اس بہانے اپنے نرخوں کو ایڈجسٹ کرتا ہے۔ پرانے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارچز نکال کر عوام سے زبردستی وصول کرتا ہے۔ اپنی مرضی کے سبب بنا کر رقم اینٹھنے کے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں دوسرے ادارے بجلی کے اضافی بلوں کو اپنے صارفین سے وصول کرتے ہیں۔ کیا معاملات حکومت کے ہاتھ سے نکل کر عملی طور پر مافیاز کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں۔ کوئٹہ شہر میں ایک روٹی 60 روپے میں ملنے کا کیا مطلب ہے۔ پورے ملک میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا ہے۔ کوئٹہ میں روٹی ملنے میں بھی مشکلات ہیں۔ کئی عشروں کے بعد عوام آدھی روٹی بھی خریدنے لگے۔ سبزی، گوشت، ٹماٹر کی قیمتوں میں کمی ہونے میں نہیں آرہی ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز جہاں اشیا سستی ملنی چاہییں۔ وہاں گھی اور تیل کی قیمتوں میں 38 روپے تک کا اضافہ ہو گیا ہے۔درجنوں ادارے بند ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ ہے کہ اکتوبر میں بھی حالات اسی طرح خراب رہے ہیں جس طرح پچھلے مہینوں میں رہے۔ رپورٹ کے مطابق بنیادی ضرورت کی اشیا آٹا، چینی، ٹماٹر، آلو اور مصالحے وغیرہ مہنگے رہے جبکہ پھلوں کی برآمدات بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ گزشتہ دنوں مرغی، انڈوں، سبزیوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سب سے افسوس ناک امر یہ ہے کہ عوام کی قوت خرید بڑھنے کے بجائے کم ہوتی جا رہی ہے۔ وفاقی حکومت کا سارا زور بیان بازیوں پر ہے۔ ایک اور خبر یہ ہے کہ مزدوروں کا حال سب سے زیادہ برا ہے۔ کروڑوں مزدور خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مزدور طبقہ کسی قسم کے میڈیکل کا بھی حقدار نہیں ہوتا۔ اسے بیماری کی صورت میں اضافی عذاب سہنا پڑتا ہے۔ اب آئی ایم ایف نے حکم دیا ہے کہ پاکستان گردشی قرضوں میں 1000 ارب کی کمی کرے۔ کمال ہے… یہی آئی ایم ایف ایسے احکامات دیتا ہے جس کے نتیجے میں ملک میں گردشی قرضے بڑھتے ہیں اور اب ان قرضوں کے 23 سو ارب تک پہنچنے پر ایک ہزار ارب کمی کا مطالبہ ہے۔ لیکن خرابی یہ نہیں کہ مہنگائی ہو رہی ہے یا معیشت تباہ ہو رہی ہے۔ اصل خرابی یہ ہے کہ حکومت اور اس کے سرپرستوں کی توجہ کہیں اور ہے۔ قوم یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہے کہ توجہ کہاں ہے۔ کشمیر ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ آٹا، چینی مافیا کے مزے ہیں۔ مہنگائی کنٹرول سے باہر ہے اور جس چیز پر سب سے زیادہ زور ہے۔ یعنی نواز شریف کو ملک واپس لانا۔اس پر ماہرین نے تبصرہ کیا ہے کہ حکومت کا کیس کمزور ہے وہ نواز شریف کو واپس نہیں لا سکتی۔ کسی معاہدے کے بغیر پاکستان کسی کو واپس نہیں لا سکتا۔ حکومت کو چاہیے کہ اگلے دو برس عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ دے تاکہ اگلے انتخابات میں کوئی کام تو دکھایا جا سکے۔ محض تقریروں سے کشمیر حاصل ہوگا نہ مہنگائی ختم ہوگی اور نہ مافیا کا کچھ بگڑے گا۔ زوردار تقریں نہیں زوردار اقدامات کی ضرورت ہے۔