اردو زبان ہماری قومی زبان

233

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اردو کے فروغ کے لیے ایک ویڈیو بنائی جس میں اردو سروس سے منسلک اینکرز سے ایک نظم کے مختلف مصرعے ایک منفرد انداز سے پڑھوا کر شاعر اقبال اشعر سے زیادہ اردو زبان کی اہمیت کو اجاگر کیا، ساتھ ہی اس زبانِ عظیم کا تعارف بھی کرایا گیا۔ آج کے کالم میں اس نظم کو شامل کرنے کا بنیادی مقصد ہمارے پاک وطن کے ان نام نہاد سیاستدان اور عوامی رہنما کو اردو زبان سے متعارف کرانا ہے۔ تاکہ مذکورہ سیاسی شخصیت آئندہ کسی اجتماع میں اردو زبان کے خلاف زبان کھولیں تو انہیں احساس ہوجانا چاہیے کہ وہ کس زبان کے بارے میں کس طرح ہرزہ سرائی کررہے ہیں۔ میں اچکزئی صاحب کی سہولت کے لیے ’’ہرزہ سرائی‘‘ کے آسان معنی بھی بتانا چاہوں گا تاکہ وہ کسی خوش فہمی یا غلط فہمی کا شکار نہ رہیں۔ ہرزہ سرائی کے معنی یا مطلب بیہودہ گوئی یا فضول گوئی ہے۔ اب میں اردو کا تعارف 55 سالہ شاعر اقبال اشعر کی نظم میں بیان کرتا ہوں۔
اردو ہے مرا نام میں خسروؔ کی پہیلی
میں میرؔ کی ہم راز ہوں غالبؔ کی سہیلی
دکن کے ولیؔ نے مجھے گودی میں کھلایا
سوداؔ کے قصیدوں نے مرا حسن بڑھایا
ہے میرؔ کی عظمت کہ مجھے چلنا سکھایا
میں داغؔ کے آنگن میں کھلی بن کے چنبیلی
اردو ہے مرا نام میں خسروؔ کی پہیلی
غالبؔ نے بلندی کا سفر مجھ کو سکھایا
حالیؔ نے مروت کا سبق یاد دلایا
اقبالؔ نے آئینۂ حق مجھ کو دکھایا
مومنؔ نے سجائی مرے خوابوں کی حویلی
اردو ہے مرا نام میں خسروؔ کی پہیلی
ہے ذوقؔ کی عظمت کہ دیے مجھ کو سہارے
چکبستؔ کی الفت نے مرے خواب سنوارے
فانیؔ نے سجائے مری پلکوں پہ ستارے
اکبرؔ نے رچائی مری بے رنگ ہتھیلی
اردو ہے مرا نام میں خسروؔ کی پہیلی
کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ
میں نے تو کبھی خود کو مسلماں نہیں مانا
دیکھا تھا کبھی میں نے بھی خوشیوں کا زمانہ
اپنے ہی وطن میں ہوں مگر آج اکیلی
اردو ہے مرا نام میں خسروؔ کی پہیلی
اردو کی جب تذلیل کرتے ہیں تو دراصل وہ خود اپنا اور اپنی اہلیت کا مذاق اڑاتے ہیں اسی عظیم اردو زبان کی ملک کے خودساختہ نام نہاد سیاستدان محمود اچکزئی نے پی ڈی ایم کراچی کے جلسے میں پاکستان کی قومی زبان اردو کی تضحیک اور کہا کہ ’’یہ ہماری زبان نہیں ہے‘‘۔ محمود اچکزئی کا کہنا شرمناک ہے اور قابل مذمت ہے۔ حیرت افسوسناک امر تو یہ بھی ہے کہ اس جلسے سے آخر میں خطاب کرنے والے جے یو آئی ف کے رہنما و قائد پی ڈی ایم اور صدر جلسہ مولانافضل الرحمن نے بھی اچکزئی کی اس فضول بات پر نہ کوئی ردعمل دیا اور نہ ہی اس کی تردید کی۔ اردو ہماری قومی زبان بھی ہے اور بحیثیت پاکستانی ہماری شناخت بھی ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ڈھاکا مشرقی پاکستان میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مارچ 1948 میں یہ بات واضح کردی تھی کہ ’’پاکستان کی قومی زبان اردو ہے جو اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا وہ پاکستان کا دشمن ہے‘‘۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ اردو اب پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی رابطے کی دوسری بڑی زبان بنتی جارہی ہے۔
وکی پیڈیا کے مطابق اردو یا لشکری زبان (یا جدید معیاری اردو) برصغیر کی معیاری زبانوں میں سے ایک ہے۔ یہ پاکستان کی قومی اور رابطہ عامہ کی بڑی و اہم زبان ہے، جبکہ بھارت کی چھے ریاستوں کی دفتری زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ آئین ہند کے مطابق اسے 22 دفتری زبانوں میں شامل کیا جاچکا ہے۔ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق اردو کو بطور مادری زبان بھارت میں 5.01 فی صد لوگ بولتے ہیں اور اس لحاظ سے یہ بھارت کی چھٹی بڑی زبان ہے جبکہ پاکستان میں اسے بطور مادری زبان 7.59 فی صد لوگ استعمال کرتے ہیں، یہ اردو تاریخی طور پر ہندوستان کی مسلم آبادی سے جڑی ہے۔ بعض ذخیرہ الفاظ کے علاوہ یہ زبان معیاری ہندی سے قابل فہم ہے جو اس خطے کی زبان ہے، اردو کو پہچان و ترقی اس وقت ملی جب برطانوی دور میں انگریز حکمرانوں نے اسے فارسی کے بجائے انگریزی کے ساتھ استعمال کرنا شروع کیا۔