بلخ کے کتے

276

میں: تمہیں ایسا نہیں لگتا ہے کہ لوگوں میں صبر نہیں رہا برداشت بالکل ختم ہوگئی ہے۔
وہ: تھوڑے پر قناعت اور ہرحال میں شکر کا رویہ جو باقی نہیں رہا، اپنے وجودکی ظاہری نمائش اورکچھ مادی اشیا کا حصول ہر فرد کا نصب العین بنتا جارہا ہے۔ اور جب کوئی معاشرہ اسی طرز زندگی کو مستقل اختیار کیے رکھے تو انسانی اقدار پیچھے رہ جاتی ہیں اور جانوروں کی عادات واطوار انسانوں کے مزاج کا حصہ بن جاتی ہیں۔
میں: تم نے آج کے انسان پر اتنا گھنائونا الزام کتنی آسانی سے لگا دیا!
وہ: میں نے کہاں لگایا، تم نے ہی کہا کہ لوگوں میں صبر نہیں رہا، برداشت ختم ہوگئی ہے، اور ایسا اس وقت ہوتا ہے جب انسان صرف اپنے بارے میں سوچے، ہر معاملے میں صرف اپنی ذات کو پیش نظر رکھے تو یہ انسانوں کی نہیں جانوروں کی خصلت ہوا کرتی ہے ۔ اور یہ سماج کے عام آدمی سے زیادہ طبقہ ٔ امرا میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ ہماری برسرِ اقتدار اشرافیہ عوام کو اُس کتے کی طرح بھنبھوڑ رہی ہے جو بیچ میں پانی پینے کے لیے بھی تیار نہیں، کہیں پانی کے اس وقفے میں بیچارے عوام کو کچھ دیر سکون کا سانس نہ مل جائے۔
میں: تو عوام صبر اور برداشت ہی سے تو کام لے رہے ہیں، جو ملتا ہے اس پر شکر کرکے کھالیتے ہیں اور نہیں ملتا تو خاموشی سے صبر کرکے لمبی تان کے سوجاتے ہیں۔
وہ: میرے دوست یہ معاملہ عام آدمی کا نہیں، جیسے میں نے کہا برسرِ اقتدار طبقے کا ہے جہاں صبرو شکر ان کے طرز حکومت میں نظر آتا ہے نہ ان کی اپنی ذات میں۔ مجھے اس موقع پر صبر اور شکر کے حوالے سے دو بزرگوں ابراہیم بن ادھم اور ان کے شاگرد شقیق بلخی کا ایک مکالمہ یاد آرہا ہے، کہو تو سنائوں؟
میں: ضرور ضرور کیوں نہیں
وہ: بلخ افغانستان کا ایک صوبہ اور چھوٹا سا قصبہ بھی ہے استاد اور شاگرد کے اس رشتے کی وجہ سے دونوں میں اس طرح کے موضوعات پر اکثر بات ہوتی رہتی تھی۔ شاگرد نے استاد سے صبر اور شکر کی تعلیمات کوان کے علم اور تجربے کی روشنی میں جاننے کے لیے سوال کیا۔ استاد نے کہا پہلے تم بتائو اس زندگی میں صبر اور شکر کو تم نے کتنا سمجھا ہے؟ شاگرد نے جواب دیا حضرت سیدھی سی بات ہے جب خدا کچھ دیتا ہے تو شکر کرتے ہیں اور نہیں دیتا تو صبر کرلیتے ہیں۔ ابراہیم بن ادھم نے جواب دیا یہ کام تو بلخ کے کتے بھی کرتے ہیں، جب انہیں کھانے کو کچھ مل جاتا ہے تو شکر کرتے ہیں اور نہیں ملتا تو صبر کرکے ایک جگہ دبک کر بیٹھ رہتے ہیں۔ استاد کے اس جواب پر شاگرد نے حیرانی سے پوچھا تو حضرت آپ بتائیے صبر اور شکر کے بارے میں آپ کی کیا تعلیمات ہیں۔ استاد نے جواب دیا کہ جب ہمیں کچھ نہیں ملتا تو شکر کرتے ہیں اور جب اللہ کچھ دیتا ہے تو ایثار کردیتے ہیں۔
میں: سبحان اللہ کیا خوب صورت بات کہی، ابراہیم بن ادھم نے نبی آخری الزماں محمدؐ کی سیرت کا نچوڑ ایک جملے میں سمو کر رکھ دیا۔
وہ: بالکل صحیح، نبیؐ کی ساری زندگی صرف اور صرف ایثار اور قربانی ہی سے عبارت ہے۔ اور ایثار نام ہے اپنی ضرورت قربان کرکے دوسروںکے کام آنے کا۔ اللہ کے دین کے نفاذ کے لیے اپنا آرام، اپنا وقت، اپنا مال اور اپنی صلاحیتیں لگانے کا۔
میں: مگر ایثار تو بہت دور کی بات ہے صبر وشکر کی روِش پر بھی چلنے کے لیے آمادہ نظر نہیں آتے۔ ہر شخص یہی رونا روتا دکھائی دیتا ہے کہ بھائی میرا اپنا پورا نہیں پڑتا تو میں اپنے عزیز رشتہ دار یا پڑوسی کا کیاخیال کروں؟
وہ: کتنی عجیب بات ہے کہ ایک طبقہ دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے ہلکان ہے تو دوسری طرف طبقہ ٔ امرا اپنا عیش وآرام تجنے کو تیار نہیں۔ حکمران، ریاست ِ مدینہ کا راگ الاپتے نہیں تھکتے مگر والی ٔ مدینہؐ کے کردار کی اک رمق بھی ان شعبدے بازوں کی زندگی کے کسی ایک گوشے میں نظر نہیں آتی۔
میں: یعنی اللہ کے رسولؐ کی سیرت بھی زندگی کے دیگر امور کی طرح صرف ظاہری نمودو نمائش بن کے رہ گئی ہے۔ بقول پروفیسر عنایت علی خان مرحوم تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے دروبام کو توسجا دیا۔
وہ: بہت خوب۔ اللہ پروفیسر صاحب کو غریق رحمت کرے۔ اصل میں یہ صبرو شکر ایثار قربانی، اسلامی تہذیب کے وہ درخشاں پہلو ہیں جو مغربی تہذیب کی ہوس اور خوں خواری کی نظر ہوگئے۔ اس موضوع پر کسی اور نشست میں تفصیل سے بات کریں گے۔