اقوام متحدہ کے چارٹر کی دھجیاں

212

عجب روح پرور منظر تھا نبی کریمؐ وضو فرما رہے ہیں اور صحابہ بڑھ بڑھ کر وہ پانی اپنے ہاتھوں میں لے رہے ہیں جو پانی نبی اکرمؐ کے ہاتھوں اور چہرۂ انور سے گر رہا تھا وہ پانی صحابہ کرامؓ اپنے چہروں اور جسموں پر مل کررہے تھے اور جن کو وہ پانی نہیں مل رہا تھا وہ ان ہاتھوں کو مس کرکے اپنے جسم اور چہرے پر مل رہا تھا جن کے ہاتھوں میں نبی کریمؐ کے وضو کا پانی لگ رہا تھا۔ آپؐ گویا ہوئے فرمایا ایسا کیوں رہے ہو؟ صحابہ نے جواب دیا اللہ اور اس کے رسول ؐ کی محبت میں۔ تب اللہ کے نبیؐ نے فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تم سے محبت کرے اور تم اللہ سے محبت کرو تو یہ تین کام کرو جھوٹ نہ بولو، امانت میں خیانت نہ کرو اور اپنے پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرو۔
ختم المرتبت سیدنا محمدؐ سے ہمیں اللہ کا صحیح تعارف حاصل ہوا آپؐ نے ہی بندوں کو بندوں کے ربّ کے ساتھ جوڑا قرآن کو نازل ہوتے ہوئے ہم نے نہیں دیکھا جنت اور جہنم ہم نے نہیں دیکھی قیامت اور اس کی ہولناکیوں کے مناظر آپؐ نے ہمارے سامنے پیش کیے آپؐ پر اعتماد کی وجہ سے ہمیں ایمان کی دولت نصیب ہوئی یہ اللہ تعالیٰ اور نبی کریمؐ کا انسانیت پر اور خصوصاً مسلمانوں پر احسان عظیم ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی احسان کو جتلایا نہیں ہے بلکہ اس ایک احسان کو جتلایا ہے۔
جہاں فرض بندگی کو ادا کرنے کا طریقہ ہمیں آپؐ سے ملا وہاں آپؐ نے انسانوں کے حقوق بھی کس طرح ادا کیے جاتے ہیں، بتایا ہے۔ جس کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ مندرجہ بالا حدیث اس تناظر میں پیش کی گئی ہے کہ فرانس کے صدر نے جس طرح اسلام کو ایک بحرانی مذہب قرار دیا ہے اور گستاخی رسول کے مرتکب ہوئے ہیں اور ایک سخت متعصبانہ رویہ ساری دنیا کے مسلمانوں اور خود اپنے ہی ملک کے فرانسیسی مسلمانو ں کے ساتھ اپنایا ہے اور اس کے ذریعے پورے یورپ کو اور یورپ کے کروڑوں مسلمانوں جو وہاں کی شہریت رکھتے ہیں ان کے سامنے اپنا ایک پورا ایجنڈا رکھ کر یورپ کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ان کے اس بیان اور رویے نے یورپ کے ذہن کی عکاسی کردی ہے اور ان کے چہرے سے نام نہاد جمہوریت کا لبادہ اتار پھینکا ہے۔ یورپ اپنے عمل سے اقوام متحدہ کے چارٹر کی بھی دھجیاں بکھیر رہا ہے جس میں مذہبی رواداری اور مذہبی شخصیات کے احترام کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کو یہ بات بین الالمذاہب کے اور ان کی شخصیات کے احترام کے ضمن میں یقنیی بنانی چاہیے تھی مگر وہ آج تک اس بات سے قاصر نظر آتا ہے۔
اسلامو فوبیا کا جو پروپیگنڈا مغرب کی متعصب ذہینت مغربی معاشرے میں پھیلارہی ہے اگر اس کا کھلے دل اور جائزہ لیا جائے تو یہ با ت عیاں ہوتی ہے کہ وہاں مسلمانوں کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا جارہا ہے اس سے تو مسلمانوں کو خوف میں مبتلا کرنے اور دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب تک جو بھی اس کے نتیجے میں جانی و مالی نقصان ہوا ہے وہ تو براہ راست مسلمانو ں کو ہوا ہے۔ دیکھا جائے تو جس کا جانی و مالی نقصان ہو اور جس کو طاقت و ریاست کے ذریعے دبایا جائے اس کو خوف محسوس کرنا چاہیے مگر یہ بات کہ یورپ کیوں اسلامو فوبیا کا رونا رو رہا ہے۔ لیکن دوسرے پہلوں سے یہ بات تو ہے کہ یورپ میں اسلام کی مقبولیت اور لوگوں کا اسلام کی طرف مائل ہونا او ر اس تعداد میں اضافہ کا ہونا ظاہر ہے یہ تعداد باہر سے آئے ہوئے مسلمانوں کے علاوہ ہے خود ان کے شہریوں کے ساتھ ہونے والے ظلم اور ان کے گلے سڑے نظام کا ہی نتیجہ ہے۔ ان کے اپنے آپ کا اقلیت میں تبدیل ہوجانا ایک منطقی انجام ہے یہی خوف دراصل ان کو لاحق ہے۔ فرانسیسی صدر امانویل ماکروں کا یہ بیان کہ اسلام ایک بحران کا مذہب ہے۔ انہوں نے یہ ایک بہت بڑا جھوٹ گھڑا ہے تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ جب بھی حق کو چھپایا ہے دنیا ایک بحران سے دوچار ہوئی ہے اور نبی کریمؐ نے ساری دنیا کو ہر طرح کے بحران سے نکالا ہے تکریم انسانیت کا بحران، حقوق انسانی کا بحران اور عورتوں کے حقوق کا بحران اسلام کو چھوڑ کر تو انسانوں نے بحرانوں کو جنم دیا ہے۔ اسلام تو ایک بے مثال متوازن دین ہے۔جس میں نبی اکرمؐ کا عشق اور آپ سے محبت بھی توازن میں ہے کہ جب صحابہ کرام آپؐ سے محبت کا اظہار فرماتے تو اس کو بھی آپؐ توازن کا راستہ دکھاتے۔ بولنے میں سچ کی تلقین کرتے، خالق کی امانتیں، نبیؐ کی امانتیں، قرآن کی تعلیمات کی امانتیں اسی طرح سے انسانوں امانتیں ان تمام امانتوں کے لیے امانت داری کی تلقین فرماتے۔ آپؐ نے تو اپنے آس پاس رہنے والے پڑوسیوں تک کے حقوق کو سختی کے ساتھ ادا کرنے کی تلقین کی ہے۔
اب آتے ہیں اسلامی دنیا کے ستاون ممالک کے اظہار حق کے بحران کی طرف سوائے چند ممالک کے تمام نے ان گستاخانہ اور اسلام کے خلاف توہین آمیز بیان کے خلاف کوئی قابل ذکر بیان تک نہیں دیا کجا کہ کوئی فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرتا اور سرکاری سطح پر ان کی اشیاء کا بائیکاٹ کرتا۔
اس میں ان تمام مسلم حکمرانوں کے ذاتی مفادات ہیں جو ان یورپی ممالک کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، وہ کسی حال میں ان ممالک کو ناراض نہیں کرسکتے ان کی خواہش ہے کہ کسی طرح یہ ممالک ہم سے خوش رہیں اور ہماری حکمرانی کو دوام بخشتے رہیں۔ مگر اصل حکمرانی تو خالق کائنات کی ہے اور جو ان کے ذاتی مفادات اس امر میں مانع ہے کہ کھل کر اس اہانت رسول کی مذمت کرتے۔ تو ان کے لیے عرض ہے کہ کل بروز محشر میں اللہ کے حبیبؐ کا سامنا ہونے والا ہے۔