ایپ اور ہیلپ لائن کیسے آپ کی زندگی بدل سکتی ہیں

172

ایپس اور ہیلپ لائنز ذاتی خود نمائی اور مشہوری کے لیے نئی ’شارٹ کٹ‘ ہیں۔ سرکاری تنظیموں سے لے کر انفرادی سطح پر لوگوں میں ایک بڑی غلط فہمی تیزی سے پھیل رہی ہے کہ ایپس اور ہیلپ لائنز آپ کی زندگیاں بدل سکتی ہیں، حکمرانی کو بہتر بنا سکتی ہیں، لاپتا بچوں کو تلاش کر سکتی ہیں اور غریبوں کو کھانا کھلا سکتی ہیں۔ کسی ملک کو چلانے سے لے کر قریب ترین عوامی بیت الخلا تلاش کرنے تک، اب ہر چیز کے لیے ایک اپلی کیشن موجود ہے۔
کسی ایپ کے ذریعہ یا ہیلپ لائن کے تحت پروگریسیو، موثر اور ٹیکنالوجی جاننے کی دوڑ تیزی سے متضاد ثابت ہو رہی ہے۔ سندھ میں 18 اور پنجاب میں 36 ہیلپ لائنیں بھی لاہور موٹر وے واقعے میں خاتون کی مدد نہیں کرسکیں۔ اور نہ ہی زینب، زہرہ یا مروہ کی عصمت دری اور موت کو بچا سکیں۔ 10 مارچ 2020 کو، آئی جی پولیس سندھ اور سی پی ایل سی نے، بہت زیادہ دھوم دھام اور میڈیا کوریج کے درمیان، زینب الرٹ ایپ کا اعلان کیا، جہاں کوئی لاپتا ہونے والے بچے کی اطلاع دے سکتا ہے۔ ایپ کی تیاری کرتے ہوئے نہ تو کسی دستاویزی منصوبہ بندی کی گئی اور نہ ہی کوئی ایسا متعین میکانزم بنایا گیا۔ جس کے ذریعے کسی گمشدہ بچے کی بازیابی کے لیے مطلوبہ اقدامات کیے جاسکیں۔ چونکہ اس ایپ کے کام کرنے کے بارے میں عوامی آگاہی فراہم کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا، لہٰذا یہ آج بھی بڑے پیمانے پر استعمال نہیں ہورہا ہے۔
ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اس ایپ پر حالیہ زیادتی اور قتل کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا۔ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں شہری ایپس کو ڈاؤن لوڈ کرنے کے بجائے کسی موثر ہیلپ لائن فون نمبر پر کال کرنا زیادہ بہتر خیال کرتا ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے، ہماری ا نسانی حقوق کی وزارت نے رواں ہفتے ایک اور ’لانچنگ تقریب‘ میں زینب الرٹ ایپ کے اپنے ورژن کا اعلان کیا۔ اس ایپ پر گمشدہ بچے کی اطلاع دینے کے لیے، کسی کو پہلے دوسرا ایپ یعنی، پاکستان سٹیزن پورٹل، ڈاؤن لوڈ کرنا ہوگا، یعنی پاکستان سٹیزن پورٹل۔ ہم نے 9 اچھے تعلیم یافتہ افراد سے کہا کہ وہ نئی ایپ کی صلاحیت کو جانچنے کے لیے آزمائشی طور پر شکایت درج کرائیں۔ لیکن کوئی بھی ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک بن گیا ہے جس نے دو زینب الرٹ ایپس حاصل کی ہیں۔ دونوں ایسی صلاحیتوں سے محروم ہیں، جن میں بیک اپ سپورٹ، ملک بھر میں ڈیٹا اکٹھا کرنے کی صلاحیت، عام شہریوں تک رسائی پولیس سے رابطہ اور کاروائی اور بازیابی کا لائحہ موجود ہو۔
لاہور موٹر وے عصمت دری کے معاملے سے بے نقاب ہونے والی بے بس ہیلپ لائینوں کی خراب کارکردگی کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم نے اپنے ڈلیوری یونٹ کو 911 کی طرز پر جلد از جلد ملک گیر ہیلپ لائن بنانے کی ذمے داری سونپی۔ ہم اس زبردست خوش آئند اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کیوں وزیر اعظم اور وزارت انسانی وسائل اس ذمے داری سے اپنے ہاتھ کھینچ رہے ہیں اور زارا (ZARRA) اتھارٹی قائم نہیں کرتے ہیں، جو بنیادی طور پر ملک بھر میں ہیلپ لائن اور ملک بھر میں زینب الرٹ، رسپانس اور ریکوری سسٹم بنانے کا ذمے دار ہے۔ متعین کاموں کے لیے نامزد اداروں کا استعمال نہ کرنا اور اس کے بجائے فوری درستی اور ’بائی پاس‘ انتظامات کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
حکومت میں موجود افراد یہ بات کیوں نہیں سمجھتے ہیں کہ بیش تر پاکستانی، خاص طور پر کسی ایمرجنسی میں، کسی اپلی کیشن کو ڈاؤن لوڈ نہیں کرسکتے ہیں، نہ ہی اس کے پیچیدہ اندراج کے عمل سے گزر کر بچے کی گمشدگی کی اطلاع دے سکتے ہیں۔ ہیلپ لائن سسٹم میں، کسی بھی عام شہری کو، کسی بھی ہنگامی صورتحال کی اطلاع دہندگی کے لیے، ایک واحد اور آسان فون نمبر ڈائل کرنے کی سہولت حاصل ہونی چاہیے تاکہ وہ ایک عام سیل فون کے ساتھ بھی یہ اطلاع دے سکے۔
حکومت کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ زینب الرٹ ایکٹ 2020 کا مطالعہ کرے اور اس پر عمل کرے اور اسی قانون کے تحت مطلوبہ ادارہ ZARRA کو فعال کرے۔ یہی ایک بہترین طریقہ ہوسکتا ہے۔ زارا کے لیے پہلا لازمی کام تمام ہنگامی صورتحال کے لیے ملک بھر میں ہیلپ لائن قائم کرنا، قومی سطح پر ڈیٹا بیس بنانا، انتباہ بڑھانے کے لیے انسٹی ٹیوٹ میکانزم اور ردعمل اور بحالی کے نظام تیار کرنا ہے۔ ایپس اور ہیلپ لائن ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ ڈیٹا بیس اور ردعمل کے طریقہ کار کا تعارفی حصہ ہے۔ چیلینج ’’فرنٹ اینڈ‘‘ کی تعمیر میں نہیں بلکہ ایسے نظام عمل کو قائم کرنے میں ہے جو اپنے پیچھے پوری طرح کام انجام دیتے ہیں۔
پاکستان کے لیے یہ جاننا بہتر ہوگا کہ ایسٹونیا جیسے چھوٹے ملک نے کس طرح دنیا کا بہترین ڈیجیٹل گورننس سسٹم تشکیل دیا، کس طرح ایک ہی ہیلپ لائن 911 پولیس، ایمبولینس اور فائر بریگیڈ خدمات ایک ہی فون کال پر فراہم کرتی ہے اور کینیا جیسے اسمارٹ ملک نے صرف ایک ایپ (M-Pesa) کو ملک کے تمام افراد، دکانوں اور تنظیموں کو مکمل رقم کی منتقلی کی خدمات فراہم کرنے کے لیے کیسے استعمال کیا۔