عزت مآب عادل ِ اعظم گلزار احمد کے ان ریمارکس سے انکار ممکن ہی نہیں کہ حکمران سرکاری پیسے کو اندھے کی ریوڑیوں کی طرح بانٹتے رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک اقتصادی بحران کا شکار ہو گیا ہے۔ غالباً اس پس منظر میں عدالت عظمیٰ نے بے نظیر امپلائز اسکیم کے ملازمین کو ادائیگی کا حکم کالعدم قرار دے دیا ہے۔ قبل ازیں ہائی کورٹ نے بے نظیر امپلائز اسکیم کے ملازمین کے واجبات ادا کرنے کا حکم صادر کیا تھا۔
یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ عدلیہ کو احساس تو ہوا کہ قوم کے ووٹ سے برسر اقتدار آنے والے حکمران قومی خزانے کو ماں کے دودھ کی طرح پیتے رہے ہیں۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ عدلیہ اس معاملے میں از خود نوٹس لیتی تو نوبت کنگال ہونے تک نہ آتی۔ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں مراعات اور سہولتوں پر توجہ دی جاتی تو قومی خزانے پر اتنا بوجھ نہ پڑتا۔ قوم کے ہاتھ کا لقمہ بھی چھیننا پڑتا۔ علاوہ ازیں صوابدیدی اختیار کا جائزہ بھی لیا جائے تو قومی خزانے کو شیریں مادر سمجھنے والوں کی سیاسی ذہنیت سمجھنے میں آسانی ہوتی۔
ہماری حکومتیں قوم کی جیب تراشنے کے لیے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں۔ جب کہ مہذب ممالک کی حکومتیں قوم کو مراعات اور سہولت فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔ اس خبر پر اہل ِ وطن مشکل ہی سے یقین کریں گے کہ سوئزر لینڈ کی حکومت نے اپنے ہر شہری کو آٹھ ہزار تین سو ڈالر کا تحفہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ مگر بہت سی حکومتی ارکان کا خیال ہے کہ ان کے شہری اس تحفے کو غیر ضروری اقدام قرار دیں گے۔ سو، یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اگر 2022 تک اس تجویز پر ایک لاکھ افراد متفق ہو جائیں تو ہر فرد کو خواہ وہ جوان ہو بوڑھا ہو بچہ ہوآٹھ ہزار تین سو ڈالر دیے جائیں گے۔ کاش کبھی ہمارے ہاں بھی ایسی حکومت آئے جو قومی خزانے کو عوام کی ملکیت سمجھے ابا جی کا دیا ہوا جیب خرچ نہ سمجھے۔
ارکان اسمبلی کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ان کی تنخواہیں اور ان کو دی جانے والی مراعات اور سہولتوں کو قومی خزانے پر بوجھ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایک ایم این اے حکومتی مدت میں سولہ کروڑ روپے تنخواہ کے نام پر وصول کرتا ہے جسے تن خواہی کہا جاسکتا ہے۔ اسمبلی میں MNA کی تعداد 342 ہے۔ یوں 5برسوں میں ارکان اسمبلی قومی خزانے سے آٹھ کھرب سے زائد وصول کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں مراعات اور سہولتوں کی مد میں ملنے والی رقم الگ ہے جو غالباً حاصل ہونے والی تنخواہ سے زیادہ ہے۔ ایم پی ایز، سینیٹرز وزیر اعظم اور صدر پاکستان کی تنخواہ کے علاوہ دی جانے والی مراعات اور سہولتوں کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
ہم ایک مدت سے انہیں کالموں میں کہہ رہے ہیں کہ اگر ملک کو مستحکم اور قوم کو خوشحال دیکھنا ہے تو قومی حکومت قائم کر دی جائے۔ ورنہ سیاسی تاجر ملک و قوم کو اپنی خواہش کی سونامی میں غرق کر دیں گے۔ اسمبلی کی رکنیت کا کوئی بھی خواہش مند ملک و قوم کی خدمت کرنے کی خواہش نہیں رکھتا۔ اس کا مقصد حصولِ دولت کی بے لگام خواہش ہوتی ہے۔ سو، وہ سیاسی منڈی میں سرمایہ کاری کرتا ہے۔ تجارت کوئی بھی اس میں نفع نقصان ہوتا رہتا ہے۔ رکن اسمبلی کا امیدوار نا مراد ہو جائے تو اس کا سرمایہ ڈوب جاتا ہے۔ اور اگر اس کی امید بر آئے تو قوم کو اپنی خواہش کی سونامی میں ڈبو دیتا ہے۔
وطن عزیز کی مائیں اتنی بانجھ نہیں ہیں کہ وہ دیانت دار اور محب وطن افراد کو پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوں۔ اگر اہل افراد کو موقع دیا جائے۔ توملکی وسائل سے ہی ملک خوشحال ہو سکتا ہے۔ مگر وطن عزیز کا سیاسی ڈھانچہ ایسے خطوط پر استوار کیا گیا ہے جس نے ملک کے انجر پنجر ڈھیلے کر دیے ہیں اور قوم کو ڈھانچہ بنا دیا ہے۔ پانی کی قلت کراچی میں ہی نہیں جنوبی پنجاب کی عوام بھی پانی پانی پکار رہے ہیں۔ مگر مقتدر طبقہ پانی پانی ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ بہاولپور میں پانی کی کوئی کمی نہیں مگر زیادہ تر علاقوں کا پانی کھارا اور بد مزا ہے۔ اتنا بد مزا ہے کہ حلق سے نیچے ہی نہیں اترتا البتہ ان علاقوں کے رہنے والوں کی خوش نصیبی یہ ہے کہ یہاں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو میٹھا پانی فراہم کرنے میں کوئی بخل نہیں کرتے۔ ان کے لگائے ہوئے نلکوں سے ریڑھی بان پانی بھر کر اپنے خاندان کا پیٹ بھر رہے ہیں۔ یہ ریڑھی بان تیس کلو گرام کا ایک کین تیس روپے میں مہیا کرتے ہیں۔ یہاں سے پانی بھرنے والوں کی تعداد لگ بھگ سو کے قریب ہے اور ریڑھی والوں کی تعداد پندرہ، بیس کے قریب ہے۔ نلکے بجلی سے چلتے ہیں جس کا بل پچاس ساٹھ ہزار روپے ماہانہ آتا ہے۔ جو صاحب ِ خانہ اپنی جیب سے ادا کرتا ہے۔ بہت سے علاقوں میں ہر جمعرات کو بریانی بانٹی جاتی ہے۔ اور بریانی لینے والوں کی تعداد ڈیڑھ دو سو سے کم نہیں ہوتی۔ وطن عزیز میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو منافع کے حصول کے بغیر عوام کی خدمت کرتے ہیں۔ اگر مقتدر حلقے ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو ایسے افراد کی حکومت تشکیل دی جاسکتی ہے۔