عالمِ اسلام ایک رنج وملال کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ اہلِ مغرب نے بے سروپا مضحکہ خیز خاکے بناکر انہیں محسنِ انسانیت سے منسوب کرنے کی مذموم سازش کی ہے۔ یورپ کے چند ممالک میں یہ رجحان بدرجۂ اتم پایا جاتا ہے جن میں فرانس اور ڈنمارک سرِ فہرست ہیں۔ ان ممالک میں مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد مقیم ہے جن میں بہت سے ایسے ہیں جو مسلم اکثریتی ممالک مثلاً الجیریا، مراکش وغیرہ جو ماضی میں فرانس کے نوآبادیاتی علاقے رہے ہیں سے ہجرت کرکے فرانس اور یورپ کے دیگر ممالک میں آباد ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر ممالک سے بھی آئے ہوئے مسلمان یہاں آباد ہیں۔ مسلمان آباد تو ہوگئے یورپی ممالک میں اور انسانیت اور انصاف کی علم بردار ریاستوں نے بظاہر انہیں بڑھ کر گلے بھی لگایا لیکن دلوں کے درمیان ہمیشہ خلیج حائل رہی جس کی بنیادی وجہ ان ممالک میں بسنے والی سفید فام نسل کی مذہب بیزاری ہے۔ یہ مذہب بیزاری صرف اسلام کے لیے نہیں، اسلام سے تو وہ نفرت کرتے ہیں، بیزار وہ عیسائیت اور یہودیت سے بھی ہیں۔ جس کی بنیادی اور سب سے بڑی وجہ جنسی بے راہروی ہے۔ دیگر دنیاوی اخلاقیات جیسے چوری نہ کرنا، جھوٹ نہ بولنا وغیرہ انہیں قبول ہیں لیکن جنسی اختلاط میں وہ کسی قسم کی مذہبی، سماجی، معاشی یا معاشرتی رکاوٹ برداشت نہیں کرسکتے۔ اس رجحان میں روز بروز سختی آتی چلی جارہی ہے۔
بے راہ روی کے رجحان کو فرانس اور دیگر ممالک میں تقویت ’’لائی سٹی‘‘ (Laicite) کا نظریہ پہنچاتا ہے جو دراصل Secularism یعنی لا دینیت ہے۔ اس نظریے کے پیشِ نظر ان ممالک میں ریاست کے معاملات میں مذہب اور مذہبی اقدارکی کوئی جگہ نہیں اس لیے اخلاقی جرائم اوران کی سزا کی تشریح و توضیح میں بھی مذہب کا دخل انہیں منظور نہیں۔ پیغمبرِ اسلام کی آمد اسی لیے ہوئی کہ قبل از اسلام جو بھی مذاہب رہے ان میں تغیّر آتا چلا گیا اور وہ اپنی اصل سے ہٹتے چلے گئے۔ قرآن گواہ ہے کہ ان قوموں نے اپنے نبیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ مختلف تاریخی ادوار کے یہ مذاہب خواہ الہامی ہوں یا غیر الہامی بعد از اسلام ایک دوسرے کے قریب آتے چلے گئے اور ان کا تعاونِ باہمی بڑھتا چلا گیا۔ چونکہ یہ مذاہب اپنی الہامی اساس سے بہت دور نکل آئے تھے اس لیے ان کے پیروکاروں پر لادینیت کا نظریہ اپنانا گراں نہیں گزرا۔ فرانس، ڈنمارک وغیرہ سے لے کر روس اور چین حتیٰ کے بھارت تک نظریۂ لادینیت میں اپنی بقا دیکھنے لگے۔
بھارت جب تک لادینیت کا پرچار کرتا رہا تب تک آزادیٔ فلسطین کا حامی رہا لیکن جیسے ہی بھارت اپنے اصل کی جانب لوٹا اور ہندوتوا کا پرچار شروع ہوا بھارت اپنے موقف سے کھسک کر اسرائیل کی جانب ہو لیا۔ اب بھارت میں ہندوتوا کا اسلام کے بعد سب سے بڑا نشانہ لا دینیت ہے۔ لیکن وہ وقت تو جب آئے گا سو آئے گا اس وقت تمام غیر اسلامی قوتیں بشمول چین اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یکجا ہوتی نظر آرہی ہیں۔ اس صورتحال میں دنیا بھر میں اللہ کی وحدانیت اور رسول اللہؐ کی تعلیمات پر غیر متزلزل ایمان رکھنے والوں کو متحد ہونا پڑے گا۔ اسلام مخالف قوتوں کا لائحۂ عمل اب واضح نظر آرہا ہے۔ وہ اسلام مٹانے کے لیے دین اسلام کی روشنی میں پروان چڑھنے والے طرزِ معاشرت کو آلودہ کرنے جس میں وہ کسی حد تک کامیاب ہو چکے ہیں اور مٹانے کے متمنی ہیں۔ ایک بار خدانخواستہ ایسا ہوجائے تو اسلامی معاشروں میں نظریۂ لادینیت قدم جمانے میں کامیاب ہوجائے گا۔
لادینی نظریہ تو کیا کامیاب ہوتا، فرانس اور دیگر ممالک میں مقیم مسلم مہاجر مستحکم اسلامی طرزِ معاشرت کا مظہر بنتے جارہے ہیں۔ چونکہ مسلم اکثریتی ریاستیں اتنی مضبوط نہیں کہ وہ مسلمانوں کا دفاع کرسکیں اس لیے یہ بہت آسان ہوگیا ہے کہ مسلم مہاجرین کو مشتعل کرکے ایسے اقدامات پر مجبور کیا جائے کہ ان کے خلاف کاروائی ہوسکے۔ بے سروپا خاکے بناکر انہیں نبی کریمؐ کا عنوان دینا اسلام دشمنوں کا ایک ہتھیار بن چکا ہے۔ نبی کریمؐ کا نام ان خرافات میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ آزادیٔ اظہار نہیں یہ جھوٹ کا پرچار اور فریب ہے۔ اہل ِ مغرب نے رسول اللہؐ کو کب دیکھا جو ان کے خاکے بنائیں گے؟ اور جب یہ ان کے خاکے نہیں تو یہ سراسر بددیانیتی، دھوکا اور فریب ہے کہ اس پر سرکار کا اسمِ مبارک لکھا جارہا ہے۔ اہل ِ فرانس جس طرح چاہیں اپنے ذہنی انتشار اور جہالت کے شاہکار ان خاکوں کی نمائش کرلیں لیکن اگر وہ ہمارے نبی کا نام ان سے منسوب کریں گے تو اہلِ اسلام انہیں یہ گستاخی معاف نہیں کریں گے۔