تین نومبر سے بحرِ عرب میں ’’کواڈ‘‘ کی مشقوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ یہ مشقیں 15دن جاری رہنے کا امکان ہے ان مشقوں میں امریکا، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہو رہے ہیں ان کے مقاصد پاکستان کو گھیرنے کے سوا کچھ نہیں، یہ تمام مشقیں جزائر انڈمان، نکوبار کے اردگرد ہو رہی ہیں۔ جزائر انڈمان، نکوبار اور پاکستان کا مقدمہ کیا ہے اس سلسلے میں تفصیلات کچھ اس طرح ہیں کہ 3 جون 1947 کے تقسیم ہند کے منصوبے کے مطابق برصغیر کو 2 آزاد مملکتوں ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم ہونا تھا۔ اسی منصوبے کے مطابق پرنسلی اسٹیٹس کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی آبادی اور جغرافیائی حالات کے مطابق پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کرلیں۔ یہ منصوبہ اسی طرح پایہ تکمیل تک پہنچنا تھا۔ اگر ہندوستان لارڈ مائونٹ بیٹن کے ساتھ مل کر دھاندلی نہ کرتا اور نوزائدہ مملکت خداداد پاکستان کو کمزور سے کمزور تر کرنے کی سازشیں نہیں ہو سکتی تھیں۔ سب سے بڑی ناانصافی کشمیر کے معاملے میں ہوئی لیکن اس ساتھ ساتھ جونا گڑھ، منگرول اور حیدرآباد پر بھی ہاتھ صاف کیا گیا۔ لیکن تقسیم کے قوانین و طریقہ کار کے لحاظ سے سب سے بڑی ڈنڈی جزائر انڈمان اور نکوبار کے معاملے میں ماری گئی۔ آگے بڑھنے سے پہلے میں آپ کو ان جزائر کے بارے میں کچھ وضاحت کر دوں۔
یہ جزائر 572 چھوٹے بڑے جزیروں پر مشتمل ہیں۔ جن میں سے صرف 37 آباد ہیں۔ یہ انڈیا سے تقریباً 1300 کلومیٹر اور انڈونیشیا سے تقریباً 150 کلومیٹر کے فاصلے پر بحرِہند میں واقع ہیں جبکہ شمال مشرق میں تھائی لینڈ اور میانمر کے بیچ میں بحیرہ انڈمان پڑتا ہے۔ اور مغرب میں خلیج بنگال واقع ہے۔ یہ دو جزائر کا گروپ ہے شمال میں انڈمان اور جنوب میں نکوبار جزائر ہیں۔ اور ان کے درمیان میں 150 کلومیٹر کا فاصلہ ہے یہ پورا علاقہ بہت مصروف تجارتی راستہ ہے اور یہاں سے دن بھر میں سیکڑوں تجارتی اور عسکری جہاز گزرتے ہیں۔ ان جزائر میں ہندو، عیسائی، مسلمان اور کچھ دیگر اقلیتیں رہتی ہیں۔ یہاں کے اصل باشندے وہ مقامی قبائلی ہیں۔ جو آج بھی قبل از تاریخ کی زند گی گزارتے ہیں۔ ان کی مقامی زبان انڈمانی اور شوپین ہے۔ ان جزائر پر آبادی کے آثار ویسے تو 30ہزار سال پرانے ہیں جبکہ نو آبادیاتی طاقتوں نے یہاں پر اٹھارویں صدی عیسوی میں اپنے پنجے گاڑنے شروع کیے۔ ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی نے 12 دسمبر 1755 کو یہاں پر قدم رکھا۔ اور یکم جنوری 1756 کو نکوبار جزائر کو اپنی کالونی قرار دیا۔ لیکن بالآخر جیت تاج برطانیہ کے حصے میں آئی۔ جنہوں نے 16 اکتوبر 1868 میں ان جزائر کے حقوق ڈنمارک سے خرید لیے۔ اور تب سے لے کر قیام پاکستان تک یہ برطانیہ کے پاس رہے۔
یہاں پر زندگی انتہائی کٹھن اور بیماریاں عام تھیں برطانیہ کے نزدیک ان جزائر کا اور تو کوئی استعمال نہیں تھا البتہ سیاسی قیدیوں سے چھٹکارہ پانے کے لیے ان کو یہاں پر بھیج دیتا تھا۔ یہ ایک کھلی جیل تھی جہاں پر یہ قیدی لامتناہی سمندر میں پھنس کر رہ جاتے تھے۔ ایسے ہی خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے ایک قیدی نے دورے پر آئے ہوئے برطانوی وائسرائے کو قتل بھی کر دیا تھا۔ تقسیم ہند کے اعلان کے بعد ان جزائر کے مستقبل کا مسئلہ بھی کھڑا ہوا قائداعظم محمد علی جناح ان جزائر کی تزویراتی اہمیت سے آگاہ تھے۔ اس لیے انہوں نے وائسرائے ہندلارڈ ماوئنٹ بیٹن سے ان جزائر کی ملکیت کا دعویٰ کر دیا۔
ڈاکٹر نورالحق اپنی کتاب لکھتے ہیں ’’ابتدائی طور پر لارڈ مائونٹ بیٹن کے ذہن میں ان جزائر کو بنگال کی آزاد ریاست میں شامل کرنے کا منصوبہ تھا۔ لیکن جب بنگال تقسیم ہو گیا اور مشرقی بنگال پاکستان میں شامل ہوگیا تو جناح نے بجا طور پر ان جزائر پر پاکستان کے حق کا دعویٰ کر دیا۔ انہوں نے یہ دلیل دی کہ یہ جزائر کبھی ہندوستان کا حصہ نہیں رہے۔ یہاں کے لوگ لسانی، ثقافتی، مذہبی لحاظ سے ہندووں سے بالکل الگ ہیں‘‘۔ انہوں نے واضح کیا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان جو راستہ ہے وہ سمندر کا راستہ ہے اور یہ جزائر محل وقو ع کے لحاظ سے پاکستان کے لیے بہترین ہیں۔ مسٹر جناح نے مزید کہا کہ 15 اگست سے پہلے ان جزائر کے مستقبل کے بارے میں دفاعی نقطہ نظر سے بات چیت کر لی جائے۔ جبکہ وائسرائے کو مشورہ دیا گیا کہ وہ دفاع سے متعلق کوئی بھی بات چیت ہندوستانی رہنمائوں سے نہ کرے۔ اس طرح یہ بات چیت کبھی نہ ہو سکی اور بھارت نے ان جزائر پر غیرقانونی طور پر 1950 میں قبضہ کر لیا اور 1956 میں اپنی یونین ٹیریٹری بنا لیا۔
نوزائیدہ پاکستان اپنے گوناں گوں مسائل کی وجہ سے کبھی اس مسئلے کو کسی فورم پر نہ اٹھا سکا حالانکہ یہ مسئلہ اتنا ہی اہم تھا جتنا کہ ہندوستان کے ساتھ دوسرے زمینی مسائل ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے یہ خطہ زبردست تزویراتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ جن میں چین کی بے مثال ترقی اور اس کے اپنی تجارت کے لیے اسٹریٹ آف ملاکہ پر کلی انحصار اور امریکا، بھا رت، آسٹریلیا اور جاپان کا نیول الائنس کواڈ کا وجود میں آنا ہے۔ بھارت نے امریکا کے ساتھ مل کر ساؤتھ چائنا سی میں چین کے اثرورسوخ کو کم کرنے کے لیے اسٹریٹ آف ملاکہ کے دوسری طرف یعنی جزائر انڈمان اور نکوبار میں فوجی اڈے مضبوط کرنے شروع کر دیے ہیں اور مالابار اور ملن کے نام سے ان جزائر کے قریب نیول مشقیں کرتا رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کا حالیہ دورۂ بھارت بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اب ایک مرتبہ پھر ان جزائرکے ارد گرد ’’کواڈ‘‘ کی نیول مشقوں کا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے۔ ان مشقوں میں بھارت اس بات کی کوشش بھی کر رہا ہے کہ مشقوں کو خلیج ِ بنگال تک پھیلایا جائے۔
انڈیا کا خیال ہے کہ شمال کی طرف سے چین کے بھارت پر کسی بھی طرح کے حملے کے جواب میں یہاں پر اسٹریٹ آف ملاکہ کو بلاک کر کے چین کے چھکے چھڑا سکتا ہے۔ جو کئی وجوہات کی بنا پر ابھی قابل عمل نہیں ہے۔ مئی 2016 میں ایک تھنک ٹینک کی جانب سے منعقد کردہ ایک مذاکرے میں چین کے ہندوستان میں سفیرنے کہا: ’’جلد ہی ان جزائر پر ملکیت کا نیا داعویدار سامنے آ جائے گا‘‘۔ مجھے نہیں معلوم کہ چینی سفیر نے یہ دعویٰ کس لحاظ سے کیا ہے لیکن بجاطور پر یہ دعویدار پاکستان ہی بنتا ہے۔ ہندوستان نے چینی سفیر کے اس بیان پر شدید غصے کا اظہار کیا اُن کے خیال میں چین ساؤتھ چائنا سی کے بعد اب بحرِ ہند میں بھی اپنی ملکیت ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد حکومت پاکستان کبھی بھی ان جزائر پر اپنے دعوے سے دست بردار نہیں ہوئی اب حکومت کو بجا طور پر اپنے دعوے کو ری کلیم کرنا چاہیے اور وہ کشمیر، جونا گڑھ، منگرول اور سیاچین کو متنازع قرار دیتا ہے وہیں وہ ان جزائر پر اپنے دعوے کو بھی دنیا کے ہر فورم پر اٹھائے اور اپنا حق حاصل کرے۔