یورپ میں مذہب اور سائنس کے بیچ میں ہونے والے ٹکرائو نے دونوں کو ایک دوسرے سے نا بلد کرکے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، اس کے اثرات ہمیں برصغیر پاک وہند میں بھی ملتے ہیں، جہاں سائنس کا انکار مذہب کے نام پر کیا جاتا ہے۔ اس پر پڑنے والی گردکو کافی حد تک جدید علوم جاننے والے علماء نے صاف کیا ہے۔
اس دور کے دو بڑے حقائق مذہب اور ٹیکنالوجی ہیں۔ ان کے بیچ کی راہ نکالنے کے لیے ایسے علماء درکار ہوں گے جو بیک وقت دینی علوم اور جدید علوم کے ماہر ہوں۔ ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ دلائل کو ٹیکنالوجی کے ظاہر پر اور اس کی نسبت کو دیکھ کر دینے سے وہ ہماری عقیدت کے مطابق مجرم ٹھیری ہے۔ اگر یہی تجربہ ہم آنے والی نئی ایجادات کے ساتھ کریں گے تو یہ خلیج مزید گہری ہوجائے گی۔ ماضی میں عیسائیت نے جو دلائل سائنس کے مقابل دیے وہ سب کے سب اس کے سامنے نہ ٹک سکے اور سائنس بہرحال ایک عظیم فاتح کی صورت میں موجود رہی بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ماہرین اور ان کے متبعین لادین بن گئے۔ اسلامی فکر کی ایک عظیم خصوصیت یہ ہے کہ وہ احکام جو بالخصوص عوام الناس سے تعلق رکھتے ہیں وہ دور کے مطابق تبدیل ہوسکتے ہیں۔ اسی بنیاد پر نئی ٹیکنالوجی کو ہم کئی زاویوں سے دیکھ کر یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسلامی فکر کہاں کہاں مجروح ہورہی ہے وہاں ہم سائنس کو غلط قرار دے سکتے ہیں۔ اسلام اور سائنس کے بیچ موجود خلا کا اندازہ اس تحقیق سے لگایا جاسکتا ہے جو PEW Research Center کی طرف سے ہوئی ان میں سے چند اعداد وشمار آپ کے
سامنے رکھتے ہیں کہ جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہیکہ کس ملک کے مسلمان سائنس کو اسلام کے مخالف سمجھتے ہیں۔ وہ ممالک جہاں کے لوگ سائنس کو اسلام مخالف سمجھتے ہیں علی الترتیب یہ ہیں، البانیا، لبنان، بنگلادیش، تنزانیہ، بوسنیا اور ترکی۔ جب کہ سائنس کو اسلام کے حق میں سمجھنے والوں میں فہرست میں یہ ممالک ہیں، اردن، مصر، فلسطین، عراق اور قازقستان۔
اسی ریسرچ کو سامنے رکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عام فرد سائنس کو کس نظر سے دیکھتا ہے اور تیزی سے بڑھتی سائنسی ایجادات بھی اب ہر فرد کو متاثر کرتی جارہی ہے۔ ان میں سب سے زیادہ متاثرکن ایجاد مصنوعی ذہانت ہے جو ابھی تک ابتدائی شکل میں موجود ہے اور اپنے اثرات کے پیش نظر پہلی ایجادات سے کہیں زیادہ طاقتور اور اسمارٹ ہے۔
2016 کی ایک تحقیق کے مطابق مسلم ممالک میں زیادہ انٹرنیٹ ان ممالک میں استعمال کیا جاتا ہے، متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت اور لبنان جب کہ استعمال کنندگان کی تعداد سب سے زیادہ نائیجیریا کی ہے اور پھر انڈونیشیا، ترکی، ایران اور پاکستان کی ہے۔ جب کہ 2019 میں پوری دنیا میں انڈونیشیا 171.26 ملین انٹرنیٹ صارفین کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے جب کہ نائیجیریا 126.08 ملین یوزرس کے ساتھ چھٹے نمبر پر ہے۔
یہ وہ اعداد وشمار ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم دنیا میں ٹیکنالوجی یا سائنس کے متعلق کیا نظریات ہیں اور پھر اس کا استعمال دونوں اعداد وشمار ایک دوسرے سے متصادم نظر آتے ہیں۔ اس کے اسباب پر نظر ڈالی جائے تو سب سے اہم بات یہی نظر آتی ہے کہ ماضی میں جس طرح کا تعلق مسلمانوں کا سائنس سے تھا وہ تعلق بعد میں اس نوعیت کا نہ رہ سکا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان سائنس سے دور ہوتے گئے اور سائنس بھی اسلام مخالف نظر آنے لگی۔ اس کے اسباب پر بات کرنے کے لیے مناسب موقع درکار ہے۔ جدید ایجادات کا انڈیکس دیکھا جائے تو اس میں مسلم ممالک کا نمبر بہت پیچھے ہے۔
2009 کی ایک تحقیق کے نتیجے میں International Innovation Index میں 20 ممالک میں ترکی اور انڈونیشیا 18ویں اور 19 ویں نمبر شامل ہیں۔ تمام تر ایجادات میں مسلم دنیا کا یہ اشتراک ہے۔ ان ایجادات کا انڈیکس دیکھتے ہوئے ہمیں مصنوعی ذہانت کے استعمال اور اس کے بنانے کے حوالے سے مناسب اندازہ ہوسکتا ہے کہ مسلم دنیا اس میں کتنا حصہ ملا رہی ہے۔
مصنوعی ذہانت پر ہونے والے کام کے اعداد وشمار بیان کرنے سے قبل دنیا میں ہونے والی سائنسی تحقیق میں مسلم دنیا کی کیا پوزیشن ہے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں، تحقیق کے میدان میں مسلم دنیا میں سب سے اوپر ترکی ہے جو عالمی درجہ بندی میں 20ویں درجے پر ہے، اس کے بعد ایران ہے جو عالمی درجہ بندی میں 21 ویں درجے پر ہے۔ ملائیشیا 33ویں درجے پر، سعودی عرب 41 ویں نمبر پر اور پاکستان کا درجہ 45 واں ہے۔ اب اسی درجہ بندی کو دیکھتے ہوئے ہم حکومتی سطح پر مصنوعی ذہانت پر ہونے والے کام کی فہرست پر نظر ڈالتے ہیں کہ مسلم دنیا اس میں کہاں کھڑی ہے۔
مسلم دنیا میں سرفہرست متحدہ عرب امارات ہے جو دنیا میں 19 ویں نمبر ہے اور ملائیشیا 22 ویں نمبر پر براجمان ہے۔ قطر 42 ویں نمبر پر، ترکی 46 ویں نمبر پر جب کہ پاکستان کا نمبر 84 واں ہے۔ حکومتی سطح پر متحدہ عرب امارات میں مصنوعی ذہانت پر مشتمل فتوی سروس بھی شروع کی جاچکی ہے اور کامیابی سے اپنا کام کررہی ہے۔
مصنوعی ذہانت پر مسلمانوں کی طرف سے تحقیقاتی کام بھی ہورہا ہے لیکن اپنی تعداد اورجدید اشیاء کے استعمال کے تناسب سے بہت کم ہے۔ ان میں سے ایک نام Cambridge Muslim College ہے جہاں پر جدید سائنس اور مصنوعی ذہانت پر اسلامی نقطہ نظر سے کام ہورہا ہے۔
پاکستان میں حکومتی اور نجی سطح پر بھی کام کیا جارہا ہے، اگرچہ اس پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے لیکن بہرحال مسلم دنیا میں اس پر آغاز ہوچکا ہے اور اس پر کام کی رفتار کو کئی گنا بڑھا کر ہم مد مقابل آسکیں گے۔ وگرنہ مسلم دنیا عقائد میں ٹیکنالوجی کے مخالف اور تصرف میں بڑا گاہک متصور ہوگی۔