کراچی لاوارث نہیں

271

عالمی جریدے بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں بدترین ٹرانسپورٹ کے اعتبار سے کراچی سب سے آگے ہے۔ بلوم برگ کے مطابق ملک کو نصف سے زیادہ ریونیو دینے والا شہر سیاسی طور پر بھی یتیم ہے۔ اس شہر کی 42 فیصد آبادی کو پرانی بسوں اور ویگنوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے جبکہ دستیاب بسوں کی چھتوں پر بھی لوگ سفر کرتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ بھی عجب بات ہے کہ جو دس بسیں چلائی گئی تھیں وہ بھی سندھ حکومت نے بند کر دیں۔ جبکہ پیپلز بس سروس کے آغاز کے وقت بسوں کی تعداد 30 تک بڑھانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ بلوم برگ کی رپورٹ تو بہت کم معلومات پر مشتمل ہے۔ کراچی میں ٹرانسپورٹ کا جو حال ہے وہ صرف اچھی اور خراب بسوں تک محدود نہیں ہے بلکہ نعمت اللہ خان کے زمانے میں چلائی گئی بسیں سڑکوں سے ہٹا کر مصطفی کمال کے دور میں غائب کر دی گئیں۔ یہ بسیں کہاں گئیں، کس کو فروخت کی گئیں اس کی کوئی تحقیقات نہیں ہوئی۔ اسی طرح ٹرانسپورٹ نظام کی خرابی کے اسباب پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ رپورٹ میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ اس نظام میں خرابی کا سبب پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کے دور میں اس کی حلیف پارٹیاں تھیں۔ اے این پی کی قیادت ٹرانسپورٹ مافیا سے گہرا تعلق رکھتی تھی۔ اس کا مفاد اس میں تھا کہ شہر میں اچھی ٹرانسپورٹ ہو اور نہ موٹر سائیکلیں چلیں چنانچہ کسی بھی حادثہ، دھماکے وغیرہ کی صورت میں موٹر سائیکل پر ڈبل سواری بند کر دی جاتی تھی جس کے نتیجے میں چھ سات لاکھ لوگوں کو ویگنوں میں اور ان کی چھتوں پر پورا کرایہ دے کر سفر کرنا پڑتا تھا۔ اس شہر میں بڑی اور گرین بسیں ایک سٹی ناظم چلواتا اور دوسرا غائب کر دیتا ہے۔ سڑکوں کو قصداً توڑا جاتا ہے۔ ایک سڑک کی تعمیر کے ایک سے زیادہ ٹھیکوں کے اسکینڈل بھی سامنے آئے۔ شہر کی بہت بڑی آبادی جو 42 فیصد نہیں اس سے کہیں زیادہ ہے اچھے ٹرانسپورٹ نظام سے محروم ہے۔ طرح طرح کے نظام متعارف کرائے جا رہے ہیں جو مہنگے بھی ہیں اور ہر جگہ دستیاب بھی نہیں۔ جبکہ کراچی کو ماس ٹرانزٹ کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ بڑی بسوں کے نظام سے کراچی میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ قدرے بہتر ہو جاتا۔ بلوم برگ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مسائل کے حل کا کوئی ذمے دار نہیں ہے اس اعتبار سے تو یہ ٹھیک ہے کہ آج کل ایسا ہی ہے۔ لیکن کراچی میں ایسی نمائندگی موجود ہے جس نے کئی بار اس شہر کی سرپرستی کی ہے۔ جماعت اسلامی ہی نے کراچی کا نقشہ تبدیل کرکے رکھ دیا۔ عبدالستار افغانی کی بلدیہ نے ٹیکس لگائے بغیر بجٹ میں کروڑوں کا اضافہ کیا، سڑکوں پارکوں کا جال بچھایا۔ ان کی بلدیہ کو بااختیار بلدیہ بنانے کے مطالبے کی پاداش میں توڑ دیا گیا اور پھر کراچی پر ایم کیو ایم کو مسلط کر دیا گیا۔ 1987ء سے 33 برس کا عرصہ گزر گیا صرف 5 سال کے لیے نعمت اللہ خان آئے اور 1987ء سے 2001ء تک کے عرصے کی تباہی اور لوٹ مار کے اثرات کو ختم کیا۔ کراچی کو ایک بار پھر چمکتا دمکتا اور روشن سرسبز کراچی بنا دیا۔ اس مرتبہ ٹرانسپورٹ، پارک، اسپتال، کالجز، اسکول ہر طرح کی سہولت دی گئی۔ سیوریج کے مسائل حل کیے گئے، سڑکوں کی مرمت اور صفائی کا نظام نہایت تیز رفتار کر دیا گیا۔ نعمت اللہ خان نے دو بڑے کام کیے ایک تو نیا سٹی گورنمنٹ کا نظام کھڑا کیا دوسرے شہر کی شکل بدل کر رکھ دی۔ صرف کرپشن بند ہونے سے اربوں روپے کا فائدہ ہوا اور کرپشن کرنے والوں کو سب سے زیادہ تکلیف تھی۔ متحدہ قومی موومنٹ حکومت سندھ کے ساتھ تھی اس نے ٹرانسپورٹ کے نظام کے لیے رکاوٹیں ڈالیں۔ کے فور پر کام رکوا دیا جو آج تک مکمل نہیں ہو سکا۔ پھر اپنے ہاتھوں سے بلدیہ کراچی کے اہم محکمے حکومت سندھ کے حوالے کر دیے جس کے نتیجے میں بلدیہ کے ہاتھ پائوں کٹ گئے۔ اس کے پاس وسائل ختم ہو گئے یا نہ ہونے کے برابر رہ گئے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نعمت اللہ خان کے دور میں بلدیہ یعنی سٹی گورنمنٹ کے پاس روزمرہ کے اخراجات کے لیے فنڈز موجود رہتے تھے۔ بڑے بڑے منصوبے اپنے بل پر مکمل کیے گئے جبکہ صرف میگا منصوبوں کے لیے مرکزی حکومت یا غیر ملکی بین الاقوامی اداروں سے مدد لی گئی۔ لیکن کرپشن کرنے والوں نے کراچی سے اسلام آباد تک طوفان اٹھا دیا اور جنرل پرویز مشرف کا متحدہ سے سودا ہو گیا پھر قانون تبدیل کیے گئے۔ بلدیہ کی شکل بدل کر رکھ دی گئی اور دھاندلی کے ذریعہ نعمت اللہ خان کی جگہ مصطفی کمال کو سٹی ناظم بنا دیا گیا۔ کسی کی صلاحیتوں اور قابلیت پر تبصرہ کرنا تو مناسب نہیں لیکن نعمت صاحب ’آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے‘ کے مصداق ساری دنیا کے سامنے تھے اور مصطفی کمال… کمال ہی کمال ہے۔ اب کراچی کے مسئلے کو حافظ نعیم الرحمن نے اٹھایا ہے۔ مردم شماری میں دھاندلی کرکے شہر کی آبادی سے ایک ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو کم کر دیا گیا۔ اس کی وجہ سے شہر کی صوبائی اور قومی اسمبلی کی سیٹیں کم ہو گئیں۔ کراچی کے فنڈز کم ہو گئے۔ اس کے وزیروں اور تین چار درجن سے زیادہ ارکان صوبائی اسمبلی کی موجودگی میں کوٹا سسٹم میں بھی توسیع کر دی گئی اور بلدیہ کے مالدار محکمے سندھ حکومت کے پاس چلے گئے۔ حافظ نعیم کی قیادت میں کراچی میں مردم شماری، شہر کو با اختیار بلدیہ دینے اور کے الیکٹرک جیسے اداروں کو لگام دینے کے لیے مہم چلائی جا رہی ہے۔ خدمت خلق کا ریکارڈ قائم کرنے والی الخدمت کی ٹیم ان کے ساتھ ہے۔ شہر کی بلدیہ یا کوئی سرکاری عہدہ نہ ہونے کے باوجود کراچی کی خدمت کی جا رہی ہے۔ بلوم برگ کی رپورٹ تو نامکمل ہے اسے مکمل اس صورت میں کہا جا سکتا ہے کہ اس میں یہ بات شامل کی جائے کہ جب بھی جماعت اسلامی کو اس شہر کی خدمت کا موقع ملا اس نے شہر کو جگ مگ جگ مگ کر دیا۔ آج بھی کراچی لاوارث نہیں جماعت اسلامی میدان میں ہے۔ کوئی کراچی کو سنبھال سکتا ہے تو صرف جماعت اسلامی ہے۔