سیدنا محمد رسول اللہؐ کے مقاماتِ عالیہ اور خصائصِ کبریٰ میں سے ایک اہم اعزاز ’’مقامِ محمود‘‘ ہے، اس کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھا کیجیے جو خاص آپ کے لیے اضافی عبادت ہے، یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا‘‘۔ (بنی اسرائیل :79)
مندرجہ بالا آیت میں لفظِ ’’عَسیٰ‘‘ آیا ہے جو امید کے معنی میں ہوتا ہے، لیکن جب اس کلمے کی نسبت اللہ کی طرف ہو تو پھر وجوب کے معنی میں آتا ہے، یعنی یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا، کئی مفسرین نے یہ معنی مراد لیا ہے۔ لغوی اعتبار سے ’’محمود‘‘ کے معنی ہیں: ’’ہر اعتبار اور ہر جہت سے ایسا مقامِ رفیع کہ ہر ایک کے لیے مرکز ومحور بن جائے، سب کی نظریں اُسی کی طرف اٹھیں اور ہر ایک بے اختیار مدح وستائش پر مجبور ہوجائے‘‘، شریعت کی اصطلاح میں اس سے مراد ’’مقامِ شفاعتِ کبریٰ‘‘ ہے۔
شفاعت کا اردو متبادل سفارش ہے، یہاں ہم نے شفاعت کے لغوی معنی سے دانستہ اعراض کیا ہے تاکہ تحریر عام قارئین کے لیے ثقیل نہ ہوجائے۔ شریعت میں شفاعت کے معنی ہیں: ’’رسول اللہؐ کا مقبولین بارگاہِ خداوندی کی بلندیِ درجات، صغیرہ گناہوں کی معافی، گناہگاروںکے لیے کبیرہ گناہوں کی مکمل معافی یا عذاب میں تخفیف کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا، استغفار اور سفارش کرنا‘‘، پس یہ سفارش ہر ایک کے حسبِ حال ہوگی۔ محشر میں سب اہلِ ایمان، اولیا، صلحا، صدیقین، انبیائے کرام علیہم السلام، فساق وفجار، کفار ومشرکین اورمنافقین الغرض سارے انسان جمع ہوں گے اور میزانِ عدل قائم ہونے میں تاخیر ہوگی، یہ مرحلہ سب کے لیے انتہائی مشقت وپریشانی کا باعث ہوگا اور سب کی تمنا ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی وسیلہ بنے اور یہ عبوری مرحلہ آگے کی طرف بڑھے، قرآنِ کریم میں میدانِ حشر کی ہولناکی کو بیان کیا گیا ہے: ’’بے شک تمہارے رب کے نزدیک ایک دن ایسا ہے جو تمہاری گنتی کے مطابق ایک ہزار سال کی مانند ہے‘‘۔ (الحج:47)
الغرض زمان ومکان ایک ہوگا، لیکن ہر ایک پر اپنے اعمال کے مطابق بیت رہی ہوگی،آپؐ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن سورج مخلوق کے قریب ہوگا، لوگ اپنے اعمال کے اعتبار سے اپنے پسینے میں ڈوبے ہوں گے، کسی کا پسینہ ٹخنوں تک، کسی کا گھٹنوں تک، کسی کا کمر تک اور کسی کا لگام کی مانند منہ تک پہنچا ہوگا‘‘۔( مسلم) پس ایسا ممکن ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام اور اللہ تعالیٰ کے مقربین ومحبوبین کے لیے وہ دن پل بھرکی مانند ہوگا، تاہم انسان چاہتا ہے کہ عبوری منزل سے گزر کر اپنے مستقل مقام پر جاپہنچے۔
صحیح بخاری کی ایک طویل حدیث کا خلاصہ ہے: ’’اہلِ محشر مصیبت کے عالم میں کسی شفیع اور وسیلے کی تلاش میں سرگرداں ہوں گے، وہ باری باری حضراتِ آدم، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سے رجوع کرتے ہوئے بالآخر رحمۃ للعالمین سیدنا محمد رسول اللہؐ کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے، کیونکہ ہر نبی یہ کہے گا: آج بارگاہِ جلالت میں مجھے کچھ عرض کرنے کی مجال نہیں ہے، تم کسی اور کے پاس جائو۔ جبکہ آپؐ فرمائیں گے: اس منصب کا اہل میں ہی ہوں۔ پھر آپؐ کو اذنِ شفاعت عطا ہوگا، اس عظیم منظر کو آپ یوں بیان فرماتے ہیں: ’’مجھے حمدِ باری تعالیٰ کے خاص کلمات اِلقا کیے جائیں گے، میں ان کلمات سے اللہ کی حمد بیان کروں گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا: اے محمد! سر اٹھائیے، آپ جو کہیں گے، سنا جائے گا، آپ جو مانگیں گے، عطا کیا جائے گا، آپ کی شفاعت قبول ہو گی، آخر میں ہے: آپ سورہ بنی اسرائیل آیت 79 کی تلاوت کرکے فرمائیں گے: ’’یہ وہ مقامِ محمود ہے جس کا اللہ نے تمہارے نبی سے وعدہ فرمایا ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے‘‘۔ (الضحیٰ:5) علامہ قرطبی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: ’’جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبیؐ نے فرمایا: پھر تو جب تک کہ میرا ایک بھی امتی جہنم میں ہے، میں راضی نہیں ہوں گا، پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ جبریلِ امین سے فرمائے گا: محمدؐ کے پاس جائو اور کہو: بے شک ہم آپ کو آپ کی امت کے بارے میں راضی کریں گے اور آپ کو رنج نہیں پہنچائیں گے‘‘۔ ( مسلم)
رسول اللہؐ نے اپنے فضائل وخصائص خود بیان کیے، ہم کئی احادیثِ مبارکہ میں بیان کردہ فضائل کو یکجا کر کے درج کر رہے ہیں، آپؐ نے فرمایا: ’’میں قیامت کے دن اولادِ آدم کا سردار ہوں گا اور یہ میرے لیے کوئی فخر کی بات نہیں، آدم علیہ السلام سے لے کر عیسیٰ علیہ السلام تک سب انبیاء میرے پرچم تلے ہوں گے، میں رسولوں کا قائد ہوں گا، میں خاتم النَبِیّٖن ہوں، میں سب سے پہلے شفاعت کرنے والا اور مقبولُ الشفاعۃ ہوں گا اور یہ میرے لیے فخر کی بات نہیں، قبر سے باہر آنے والا پہلا شخص میں ہی ہوں گا، جب انسانیت اللہ کے حضور حاضر ہوگی تو اُن کا قائد میں ہی ہوں گا اور جب جلالِ الٰہی کے آگے سب لوگ مہر بہ لب ہوں گے تو اُن کا ترجمان میں ہوں گا، جب انہیں حشر میں روک دیا جائے گا تو اُ ن کا وسیلۂ شفاعت میں بنوں گا، جب نجات کی ساری امیدیں ٹوٹ جائیں گی تو بشارت دینے والا میں ہی ہوں گا، ساری عزتیں اور رب کے خزانوں کی کنجیاں میرے ہاتھ میں ہوں گی، حمدِ باری تعالیٰ کا پرچم میرے ہاتھ میں ہوگا ، اللہ کی بارگاہ میں اولادِ آدم میں سب سے معزز میں ہی ہوں گا، ہزاروں خدام چمکتے ہوئے موتیوں کی طرح میرے گردوپیش ہوں گے‘‘۔
نبیؐ نے فرمایا: ’’جب مؤذن اذان کہے تو تم بھی کلماتِ اذان کو دہرائو، پھر مجھ پر درود بھیجو، کیونکہ جو مجھ پر ایک بار درود بھیجے گا، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا، پھر میرے لیے مقامِ وسیلہ کی دعا مانگو، یہ جنت میں ایک نمایاں مقام ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی ایک خاص بندے کو عطا فرمائے گا، مجھے یقین ہے کہ وہ میں ہی ہوں گا، سو جو میرے لیے ’’مقامِ وسیلہ‘‘ کی دعا مانگے گا، اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوجائے گی‘‘۔ ( مسلم) ہم نے اپنے مجموعۂ فتاویٰ ’’تفہیم المسائل‘‘ کی جلد اول میں یہ ثابت کیا ہے کہ دعا بعد الاذان کے تمام کلمات احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہیں، اُس میں یہ بھی ہے: ’’اور اے اللہ! انہیں مقامِ محمود پر فائز فرما، جس کا تو نے اُن سے وعدہ فرمایا ہے‘‘۔ رہا یہ سوال کہ جب اللہ نے اپنے حبیبِ مکرمؐ سے ’’مقامِ وسیلہ‘‘ اور ’’مقامِ محمود‘‘ کا وعدہ فرما رکھا ہے تو ہماری دعا کی کیا ضرورت ہے، تو جواباً عرض ہے: ’’ہماری دعا ہماری اپنی سعادت کے لیے ہے، رسول اللہؐ کے مقاماتِ رفیعہ ہماری دعا کے محتاج نہیں ہیں‘‘۔