میخواں! دباو میں آکر معقولیت پر مائل؟.مسعود ابدالی

185

دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دل آزاری کے بعد فرانسیسی صدر ایمونوئیل میخواں نے وضاحت فرمائی ہے کہ گستاخانہ خاکوں سے متعلق ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پھیلایا گیا اور یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ گویا وہ ان خاکوں کے حامی ہیں یا فرانسیسی صدرکی تحریک وتجویز پر یہ خاکے بنائے گئے ہیں۔قطر کے الجزیرہ ٹیلی ویژن کو ایک خصوصی انٹرویو میں فرانسیسی صدر نے کہا کہ ‘اس پورے تنازعے میں میرا کردار بس اتنا ہے میں نے امن وا مان برقرار رکھتے ہوئے آزادیِ اظہار رائے کادفاع کیا’۔ انکا کہنا تھا کہ چارلی ہیبڈو ایک ازاد ادارہ ہے جسکا فرانس یا حکومتِ فرانس سے کوئی تعلق نہیں۔یہ خاکے نہ تو حکومت نے بنوائے ہیں اور نہ فرانسیسی حکومت چارلی ہیبڈو کی حامی یا سرپرست ہے۔ جناب میخواں نے کہاکہ وہ مسلمانوں کے جذبات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور انھیں معلوم ہے کہ ان خاکوں سے مسلم دنیا کو صدمہ پہنچا ہے۔فرانسیسی صدر نے کہا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کا احترام کرتے ہیں اورمسلمانوں کو یہ جاننا چاہئے کہ ان خاکوں سے میرا یا فرانسیسی حکومت کا کوئی تعلق نہیں۔ صدر میخواں نے کہا کہ انکے خلاف اشتعال کی وجہ ان سے منسوب جھوٹی کہانیاں ہیں۔ انکے بیان کو مسخ کرکے کہا گیا کہ فرانسیسی صدر نے خاکوں کی اشاعت کیلئے کہا ہے۔ میخواں نے کہا کہ ‘ میرا مقصد یہ نہیں تھا۔ میں نے صرف یہ کہا تھا کہ فرانسیسی قانون کارٹون بنانے سمیت ہر قسم کی آزادی رائے کا حق دیتا ہے اور ہم اس آزادی کو سلب نہیں کریں گے’۔فرانسیسی صدر نے خود سے منسوب اس بیان سے بھی لاتعلقی کا اظہار کیا کہ ‘اسلام ساری دنیامیں بحران کا شکار ہے’ جس سے مسلمانوں نے سمجھا کہ ‘میں اسلام کا مخالف ہوں۔حالانکہ میں نے تو مسلمانوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر جگہ شدت پسند، اسلام کے نام کو استعمال کررہے ہیں’
اس چارہ سازی اور غم گساری کے بعد موصوف نے ناصح کی ٹوپی اوڑھتے ہوئے فرمایا کہ کچھ لوگ اسلامی تعلیمات کو غلط طریقے سے پیش کرتے ہیں۔اسلامی تعلیمات کی گمراہ کن تشریح کرکے گلے کاٹنے (slaughter)، تشدد، خونریزی اور اشتعال انگیزی پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ فرانسیسی صدر نے کہا کہ اسلام کے نام پر جو چیز پھیلائی جارہی ہے وہ خود مسلمانوں کے لیے ایک آفت بن چکی ہے اور میں یہ بات کئی بار کہہ چکا ہوں دہشت گردی کا خمیازہ بھگتنے والے 80 فیصد افراد مسلمان ہیں۔
الجزیرہ نے صدر میخواں کے اس انٹرویو کے فوراً بعد فرانس میں انسانی و شہری حقوق کمیٹی کے سربراہ یاسر لواشی (Yasser Louati)کا تبصرہ نشر کیا۔ جناب لواشی نے صدر میخواں کے انٹرویو کو مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی ایک کوشش قراردیا۔ انکا کہنا تھا کہ مسلم انتہا پسندی پر لیکچر دینے والے میخواں نے انتہاپسندی کی کوئی تعریف نہیں بیان کی۔ فرانسیسی صدر اور انکے ساتھی پابندی سے نماز باجماعت اداکرنے والے مسلم نوجوانوں کو انتہا پسند گردانتے ہیں اور انکے خیال میں اسکارف اوڑھنے والی نو خیز لڑکی انتہا پسند ہے۔ اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزار نے والے مسلمانوں کو ان خوفناک دہشت گردوں اور مسلم دشمن گروہوں کے برابر سمجھا جارہا ہے جو دنیا کے مختلف حصوں میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل کے ذمہ دار ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ فرانس میں انتہا پسندی کے نام پر مسلمانوں کا قافیہ تنگ کردیا گیا ہے۔
جناب لواشی نے کہا ‘صدر میخواں نے انٹرویو میں سفید جھوٹ بولدیا کہ مقامی لوگ انکے بیان کو سمجھتے ہیں اسلئے فرانسیسی مسلمانوں میں انکے خلاف کوئی منفی ردعمل نہیں’۔جناب یاسر لواشی کا کہنا تھا کہ ملک کی خفیہ ایجنسیاں مسلمانوں کی جاسوسی میں مصروف ہیں اور خوف و ہراس کی وجہ سے لوگ گھروں اور نجی محفلوں میں بھی ان خاکوں کا کوئی ذکر نہیں کرتے کہ کہیں بچے یہ بات اسکول کے ساتھیوں یا دوستوں سے نہ کہدیں۔ جناب یاسر نے مسلمانوں کے بارے میں صدرمیخواں کی بد نیتی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ الجزیرہ کے انٹرویو کے بعد انھوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ‘سیکیولرازم نے کسی کو قتل نہیں کیا’۔ اس ٹویٹ کی شان نزول کیا تھی؟ آجکل صدر میخواں اسلام اور سیکیولر ازم کو ایک دوسرے کا مد مقابل قرار دے رہے ہیں اور اس پس منطر میں اس ٹویٹ کی تشریح اسکےعلاوہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ پرامن سیکیولرازم کے مقابلے میں اسلام کشت وخون کی تعلیم دیتا ہے۔ فرانسیسی صدر اپنے ٹویٹ انگریزی اور فرانسیسی دونوں میں جاری ہیں کرتے لیکن مندرجہ بالا ٹویٹ پیغام صرف فرانسیسی زبان میں نشر کیا گیا۔ گویا وہ اپنے فرانسیسی حامیوں کو باور کرانا چاہتے تھے کہ الجزیرہ پر وضاحت محض ‘موذیوں’ منہہ بند کرنے کے لئے تھی ورنہ انکی انتظامیہ اسلاموفوبیا کے معاملے میں اپنی حریف میری لاپن سے کسی طور پیچھے نہیں۔
فرانسیسی مسلمانوں کیخلاف حالیہ مہم کا آغاز 2 اکتوبر کو ‘انتہاپسندی سے نمٹنے کی حکمت عملی’ کے عنوان سے ہونے والے سیمینار سے ہوا جہاں کلیدی خطاب کرتے ہوئے صدر میخواں نے کہاتھاکہ اسلام ساری دنیا میں بحران کا شکار ہے۔ ہم فرانس کو اس بحران کا حصہ نہیں بننے دینگے اور اسلامی انتہا پسندی سے سیکیولراقدارکی ہر قیمت پر حفاظت کی جائیگی۔ الجزیرہ کے انٹرویو میں فرانسیسی صدر نے اپنی گفتگو کے اس حصے کی تردید کی ہے حالانکہ انکے خطاب کا پورا متن خود فرانسیسی حکومت کے شعبہ ابلاغ عامہ نے جاری کیا تھا۔ اپنی تقریر میں جناب میخوان نے بہت وضاحت وصراحت سے کہا تھا کہ تعلیم اور عوامی مقامات سے اسلام کو بیدخل کرنے کیلئے موثر قوانین وضع کئے جارہے ہیں۔ جناب میخوان نے انکشاف کیا کہ انتہا پسندی، متوازی رویوں اور مسلم ثقافت خاص طور سے ذبیحہ، حجاب و پردہ جیسے خطرات سے نبٹنے کیلئے اس سال کے آخر تک ایک مسودہ قانون پارلیمان میں پیش کیا جارہا ہے۔انکا کہناتھا کہ مسلم انتہا پسند اپنے محلوں، مساجد اورمدارس میں شریعت نافذ کرکے ریاست کے اندر ریاست قائم کررہے ہیں جسکی بیخ کنی کیلئے موثر قانون سازی ضروری ہے۔
چونکہ ہم نے فرانسیسی صدر کے اس خطاب کو اس سے پہلے اپنے ایک مضمون میں نقل کیاتھا لہٰذایہ بات بھی قارئین تک پہنچانا ضروری ہے کہ صدر میخواں نے فرانسیسی مسلمانوں کے بارے میں اپنے موقف بیان کرتے ہوئے کہاکہ ‘ہم اسلام کے خلاف نہیں لیکن اسلام کو بطور معاشرت اپنانے والے انتہا پسندوں سے فرانس کی سالمیت کو سخت خطرہ لاحق ہے۔فرانس ایک سیکولر ملک ہے اوریہاں مسلم انتہا پسندوں کو متوازی معاشرہ بنانے کی قطعی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ فرانسیسی اقدار سے متصادم کسی رسم ورواج یا ثقافت کی یہاں کوئی گنجائش نہیں۔
اسی کیساتھ75 کے قریب مساجدکو یہ کہہ کر مقفل کردیا گیاکہ یہاں تعینات خطیب عرب ممالک کے سند یافتہ ہیں اور انھیں فرانسیسی تہذیب سے آگاہی حاصل نہیں۔ درجنوں مدارس اور مسلمانوں کے نجی اسکول بھی انتہا پسندی پھیلانے کے الزام میں بند ہیں۔حجاب پر پابندی کا دائرہ سرکاری اداروں کیساتھ نجی دفاتر و کاروبار تک بڑھادیا گیا ۔
اسی پکڑ دھکڑ کے دوران پیرس کے مضافاتی علاقے کے ایک مڈل اسکول میں تاریخ کے 47 سالہ استاد سموئل (Samuel Patty)کا اسوقت سرقلم کردیا گیا جب وہ اسکول سے اپنے گھر جارہا تھا۔ مسلم طلبہ نے شکائت کی تھی کہ سموئیل نے شاگردوں کوآزادی اظہار رائے کا سبق دیتے ہوئے کلاس میں نبی محترم صلعم کے چند توہین آمیزخاکے دکھائے تھے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق اس استاد کو ایک 18 سالہ شیشانی نوجوان عبداللہ انذروف نے قتل کیا جسے پولیس نے گولی مارکر ہلاک کردیا۔
اس واقعہ سے صدرمیخواں مزید مشتعل ہوگئے اور مسلمانوں کے خلاف کاروائیاں تیز کردی گئیں۔ صرف اسی دن تین بڑی مساجد کو مقفل کردیا گیا۔چارلی ہیبڈو نے نئے خاکے شایع کئے اور بڑی بڑی عمارات پر پروجیکٹر کے ذریعے خاکے دکھانے کے ساتھ انھیں پوسٹر کی شکل میں شایع کرکے دیواروں پر چسپاں کیا گیا۔ دوسری طرف وزیرداخلہ جیرالڈ درمانین نے خاکوں کے خلاف پرامن احتجاج کو غیر قانونی قرار دیدیا حتیٰ کہ سوشل میڈیا پر بھی اس ضمن میں ‘ منفی’ تبصرہ قابل دست اندازی پولیس قرارپایا۔پیرس کے مضافاتی علاقے کی ایک مسجد کے امام کو گرفتار کیا گیاجنھوں نے سوشل میڈیا پر حکومتی اقدامات پر تنقید کی تھی۔ فیس بک اور ٹویٹر پر I LOVE MOHAMMAD (pbuh)کے اسٹکر پوسٹ کرنے والےسو سے زیادہ مسلمان گرفتار ہو چکے ہیں۔ پیرس کی مسجدِ قبا پر 75 ہزار یورو کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے کیونکہ اس کے امام کے ویزے کی مدت ختم ہوچکی تھی۔ دلچسپ بات کہ امام صاحب کے ویزے کی توسیع کی درخواست منظور ہوچکی ہے تاہم ویزا جاری نہیں ہوا تھا۔ ضابطے کے تحت اگر توسیع کی درخواست مستردہوجائے تب بھی اسکے خلاف اپیل نبٹنے تک وہ شخص قانونی طور پر فرانس میں رہنے کا مجاز ہے۔
مسلم رفاحی تنظیموں کا مسلسل تعاقب کیا جارہاہے۔ 50 کے قریب تنظیموں کو تحقیقات مکمل ہونے تک معطل کردیا گیا۔ فرانسیسی مسلمانوں کی سب سے بڑی فلاحی (Charity)تنظیم برکہ Barakacity کوتحلیل کردیا گیاہے۔برکہ افریقہ کے 26ممالک میں ذیلی رفاحی ادارے چلا رہی ہے۔ تنظیم کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ مینوئیل میخواں اپنے تکبر کو لگنے والی ضرب کا بدلہ برکہ کے پروگرام سے مستفید ہونے والے یتیم و نادار بچوں سے لے رہے ہیں۔
فرانس کے اس اسلام مخالف طرزعمل کا ساری دنیا میں شدید ردعمل ہوا۔ مسلم ممالک کے ساتھ ہندوستان، جاپان، امریکہ، مغربی یورپ اور دنیا کے دوسرے خطوں میں شدید احتجاج ہوا۔ ترک صدر نے اپنے فرانسیسی ہم منصب کو دماغی معائنہ کرانے کا مشورہ دیا جسے فرانس نے قومی توہین قراردیتے ہوئے انقرہ سے اپنا سفیر واپس بلالیا۔کوئت، قطر، اردن، لبنان، ترکی اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ شروع ہوا۔ فرانسیسی حکومت کا اس پرشدید ردعمل سامنے آیا اور پیرس نے پاکستان اور ترکی کو فرانس کے اندرونی میں معاملے میں مداخلت سے باز رہنے کا دھمکی مشورہ دیا لیکن دوسری جانب وزارت خارجہ نے تمام مسلم ممالک کو فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ ختم کرنے کی استدعا پر مشتمل ایک سفارتی چٹھی بھی بھیج دی ۔
کرونا کی وجہ سے فرانس کی معیشت بدترین کساد بازاری کا شکار ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے یورپی ممالک کو اس نامراد وبائی مرض کے دوسرے حملے کا سامنا ہے۔ جرمنی، فرانس، برطانیہ اور بیلجیم میں دو نومبر سے ایک مہینے کا سخت لاک ڈاون نافذ کردیا گیا۔اس پس منظر میں فرانسیسی معیشت مسلم دنیا کے بائیکاٹ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
دوسری طرف حراست و گرفتاری اور جاسوسی کے باجود تشدد کی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ 29 اکتوبر کو ایک 21 سالہ تیونسی نوجوان ابراہیم العیساوی مبینہ طور پر جنوبی مشرقی فرانس کے ساحلی شہر نیس Niceکے ایک کیتھولک گرجا میں گھس گیا اور چھریوں کے وار سے دو خواتین سمیت 3 افراد کو ہلاک کردیا۔ ان تینوں افراد کی گردنوں کو نشانہ بنایا گیا۔ پولیس فائرنگ سے ابراہیم زخمی ہوگیا۔ اسے بارہ گولیاں لگی ہیں اور ابراہیم حالت نازک بتائی جارہی ہے۔
اسکے دودن بعد 31 اکتوبر کو وسط مشرقی فرانس کے شہر لائن Lyonمیں نامعلوم فرد کی فائرنگ سے قدامت پسند یونانی کلیسا Greek Orthodox Churchکے پادری نکولس کاکا ویلاکسNikolaos Kakavelakisشدید زخمی ہوگئے۔ یونانی شہریت کے حامل پادری صاحب عبادت کے بعد گرجا کا مرکزی دروازہ مقفل کررہے تھے جب انھیں نشانہ بنایا گیا۔حملہ آور موقعہ واردات سے فرار ہوگیا جسکی شناخت اور محرکات کے بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔ ان دونوں واقعات کی مسلمانوں نے شدید مذمت کی اور ترک صدر نے فون کرکے یونانی وزیراعظم سے پادری کے زخمی ہونے پر گہری ہمدردی کا اظہار کیا۔فرانس سرکار کی امتیازی پالیسی اور ملک میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر مسلمانوں کے ساتھ عالمی رہنماوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی تشویش ہے۔
اقوام متحدہ کے نمائندہ برائے تہذیبی اتحاد UNHRACجناب میگوئیل اینجل موراتینو نے تہذیبوں کے درمیان ہم آہنگی اور امن کی کوششوں کو فروغ دینے کیلئے تمام مذاہب اور عقائد کے احترام پر زور دیا ہے۔چارلی ہیبڈو میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد سے تشدد اور عدم برداشت کی لہر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مقدس ہستیوں اور مذہبی علامات و نشانیوں کی توہین سے معاشرے میں نفرت اور کشیدگی پیدا ہونا فطری ہے۔جناب موراتینو نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی کو استعمال کرتے ہوئے تمام مذاہب و عقائد کا احترام ضروری ہے۔69سالہ موراتینو کا تعلق ہسپانیہ سے ہے۔موصوف اسپین کی سوشلسٹ پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیر ہیں۔میگوئیل اینجل موراتینو نے کہا کہ تشدد کی وارداتوں اور دہشت گردی کو کسی خاص مذہب ، قومیت یا لسانی اکائی سے جوڑنا قرین از انصاف نہیں۔
کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی فرانس میں تشدد کی بڑھتی ہوئی لہر پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ دارالحکومت اٹاوامیں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کینیڈین وزیراعظم نے کہاکہ ہم آزادیِ اظہار رائے کے پرجوش حامی ہیں لیکن اس کی ایک حد ہونی چاہیے۔ اس ضمن میں دوسروں کے جذبات کا احترام لازمی ہے تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو اور ایسی کوئی بات نہیں کہنی چاہیے جس سے ہمارے ساتھ رہنے والوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔ مسلمانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ‘خاص طور پر ایسے افراد جنہیں معاشرے میں بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک کا سامنا ہے’۔ کینیڈین وزیراعظم نے کہا کہ ہیجان پھیلانے کی کسی بھی مہذب معاشرے میں اجازت نہیں سینما ہال اور سماعت گاہوں میں چیخ کر آگ آگ کہنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔
صدر میخواں کے حالیہ انٹرویو میں مسلمانوں کے حوالے سے انکے روئیے میں جو لچک نظر آرہی ہے، مبصرین کے خیال میں اسکی وجہ بائیکاٹ سے جنم لینے والا معاشی دباو،ملک میں تشد کا بڑھتا ہوارجحان، انسانی حقوق کی تنظیموں اور متوازن طبیعت کے عالمی رہنماوں کا ردعمل اور سب بڑھ کر ملک کی اندرونی سیاست ہے۔
صدر میخواں اپنے انتخابی وعدوں کی تکمیل میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔معاشی بحران اور بیروزگاری سے انکی مقبولیت تیزی سے کم ہورہی ہے۔ اس صورتحال سے میرین لاپین کی الٹرا رائٹ نیشنل فرنٹ بھرپور فائدہ اٹھارہی ہے۔ رائے عامہ کے کچھ جائزوں کے مطابق میری لاپین اسوقت صدر میخواں سے زیادہ مقبول ہیں۔ مسلم دشمن پالیسی محترمہ لاپین کی شناخت ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ میری لاپین کے ووٹ بینک میں نقب لگانے کیلئے جناب میخواں دائیں بازو کے قوم پرستوں کو یہ تاثر دیناچاہتے ہیں کہ سیکیولرازم کے ذریعے وہ اسلام کی بیخ کنی بہتر انداز میں کرسکتے ہیں۔لیکن سیکولرازم کو آمریت کی شکل میں پیش کرنے کے بھونڈے انداز نے کام خراب کردیا اور ملک کا معتدل طبقہ جو جناب میخواں کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، فرانسیسی صدر کے بارے میں اندیشہ ہائے دوردراز کا شکار ہورہا ہے۔انکے قریبی رفقا کیلئے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ آزاد خیال سیکیولر میخواں انتہاپسند قوم پرستوں کا مقابلے کیلئے انھیں کے متعصبانہ منشور کو آگے بڑھا رہا ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو معقولیت کی جانب اٹھنے والا ہر قدم حوصلہ افزائی کا مسحق ہے۔