اتحادیوں کے ظہرانے میں حکومت کو دھچکا

169

وزیراعظم عمران خان نے اپنے حکومتی اتحادیوں کے اعزاز میں ظہرانہ دیا اور نمبر گیم پر بھی خصوصی توجہ دی گئی لیکن ان کو اس ظہرانے میں اپنے اہم اتحادی ق لیگ کی عدم شرکت پر بڑا دھچکا لگا اور جو اتحادی اور پارٹی ممبر آئے انہوں نے وزیراعظم کے سامنے شکایتوں کے انبار لگا دیے کہ پارٹی وعدے پورے نہیں کر رہی ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی نے بھی ظہرانے میں شرکت نہیں کی۔ اتحادیوں نے شکوہ کیا کہ ترقیاتی فنڈز نہیں دیے جا رہے۔ وزیراعظم نے ان کو یقین دلایا ہے کہ بقیہ مدت کو بہتر طریقے سے استعمال کرکے کارکردگی پیش کریں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان ایسا کر پائیں گے؟ ان کی ترجیحات تو اب تک مکمل نہیں ہو سکی ہیں۔ نہ وہ نواز شریف کو پاکستان واپس لا سکے ہیں اور نہ اس کے لیے قانون سازی کر سکے ہیں۔ یہ تو ممکن نہیں کہ اچانک بریک لگا کر حکومت عوام کی خدمت کرنے لگے گی۔ ظہرانے کے بائیکاٹ کے نتیجے میں جو دھچکا حکومت کو لگا ہے اس کے نتیجے میں اب اس کی اولین ترجیح اتحادیوں کو منانا ہوگی کیونکہ یہ تو مرغ بادنما ہیں یعنی ہوا کا رخ بدلنے کی علامت ہیں۔ اگر عمران خان کو حکومت بچانی ہے تو ایک ایک اتحادی اور رکن کو سمیٹ کر رکھنا ہوگا ایسے حالات میں حکومت کے پاس عوامی خدمت کے لیے وقت ہی نہیں ہوگا کبھی پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو اور ان کے بڑوں کو منانا ہوگا تو کبھی بلوچستان کے ’غداروں‘ کو حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ دینے ہوں گے۔ پھر نواز شریف کو پاکستان واپس لانے کے بارے میں جو اعلان وہ روز دہراتے ہیں اس حوالے سے بھی کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔ حکومت کی اپنی صفوں میں بھی کھلبلی ہے۔ پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض چوہان کو اچانک معزول کرنا اور ان کی جگہ مرکز سے ان خاتون کو لانا جن کے بارے میں بے تحاشا الزامات عاید کیے گئے تھے۔ کیا حکومت نے ان الزامات سے محترمہ کو کلیئر کر دیا ہے یا وہ الزامات ہی غلط تھے۔ مرکز میں خدمات دینے والی خاتون کو پنجاب بھیجنے کا واضح مقصد یہ ہے کہ حکومت کو پنجاب ہی میں کچھ مشکلات ہیں۔ باہر کے اتحادیوں کو تو سنبھال لیا جائے گا لیکن اپنے ہی اگر ناراض ہو جائیں تو کیا ہو سکتا ہے۔ عمران خان کا ظہرانہ اس اعتبار سے کامیاب رہا کہ انہیں پتا چل گیا کہ کون کون ناراض ہے اور کون صرف سیاست کر رہا ہے۔لہٰذا یہ دعویٰ بھی محض دعویٰ ہی نظر آرہا ہے کہ بقیہ مدت عوامی خدمت اور اصلاح پر صرف ہوگی۔