امریکا میں نئی تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے۔ ایک صدر دوسری مدت صدارت میں کامیاب ہوتا نظر نہیں آرہا۔ جوبائیڈن کی فتح کا اعلان تو جب بھی ہوگا تو وہ سرکاری قرار پائے گا لیکن امریکی نظام انتخاب اور گنتی کے طریقہ کار کے مطابق بائیڈن فتح کے بہت قریب ہیں۔ اصل معاملہ کسی کی فتح یا شکست نہیں ہے بلکہ امریکا میں پہلی مرتبہ انتخابی نتائج پر شدید احتجاج ہو رہا ہے اور گرفتاریاں بھی ہو رہی ہیں۔ امریکا میں عام طور پر انتخابی نتائج کو خوش دلی سے قبول کیا جاتا ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی اعلان کر چکے تھے کہ وہ نتائج کو بھی چیلنج کر دیں گے اور پوسٹل بیلٹ کو بھی گننے سے رکوائیں گے۔ دوسری طرف سیاہ فاموں کی تحریک بھی مستقل بنیادوں پر چل رہی ہے۔ ایک تجزیہ ہے کہ اس مرتبہ یہ بات محض سیاسی نعرہ نہیں ہے بلکہ گنتی ختم ہونے کے بعد بھی انتخابات مکمل نہیں ہوں گے۔ فیصلہ عدالت کو کرنا پڑے گا۔ امریکی صدر ٹرمپ نہایت مشتعل ہیں اور جس مزاج کے وہ آدمی ہیں اس کے تناظر میں وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ بعض تجزیہ نگار یہ کہتے ہیں کہ امریکی سیاسی صورتحال میں بھونچال ڈیموکریٹس نے پیدا کیا ہے نہ ری پبلیکن نے بلکہ یہ کوئی اور قوت ہے جو امریکی سیاست میں دخیل رہتی ہے۔ اس قوت کے ہاتھ میں یہ بھی ہے کہ چلتی ہوئی حکومت کو جب چاہے چلتا کر دے۔ دراصل یہ احتجاج اور ہنگامے کسی اور چیز کا اشارہ ہیں۔ یہ قوت جب چاہے گی ڈونلڈ ٹرمپ خاموشی اختیار کر لیں گے۔ جس طرح پاکستان سمیت ساری دنیا میں قومی مفاد کروٹیں بدلتا رہتا ہے اسی طرح امریکا میں بھی قومی مفاد میں فیصلے تسلیم کر لیے جائیں گے۔ خواہ اس کے لیے عدالتی فیصلے یا مقدمے کی تلوار جوبائیڈن یا ٹرمپ کے سر پر لٹکا کر اسے صدر بنا دیا جائے گا پھر جو چاہیں گے اس صدر سے کروا لیں گے۔ پاکستان میں بھی میڈیا کے زیر اثر اس طرح کی باتیں ہو رہی ہیں کہ ٹرمپ اچھا نہیں تھا اور بائیڈن اچھا ہے۔ حالانکہ اس قسم کے پروپیگنڈے برسوں سے ہو رہے ہیں کم ازکم کلنٹن، بش، اوباما اور ٹرمپ کے وہ 28 برس پر محیط دور میں کہیں کبھی ایک لمحے کے لیے بھی امریکی پالیسی مسلمانوں اور اسلام سے متعلق سرمو بھی نہیں بدلی۔کلنٹن یا بش کے دور میں مسلمانوں کے خلاف جس قسم کے اقدامات کیے جاتے تھے وہ اب بھی کیے جاتے ہیں البتہ فرق یہ ہے کہ 9/11 کی آڑ میں ان اقدامات کو دستور کی پابندیوں سے آزادی مل گئی ہے ورنہ دستور میں کچھ اور لکھا ہوا ہے۔ اب ہوم لینڈ سیکورٹی کے نام پر دستور کی عطا کردہ کسی بھی آزادی کو سلب کیا جاسکتا ہے۔ یہ سمجھنا کہ جو بائیڈن ٹرمپ کے مقابلے میں اچھے ثابت ہوں گے غلط نہیں بلکہ حماقت کے درجے میں شمار ہو گا۔ دنیا میں کچھ بڑی تبدیلیاں ہونے جا رہی ہیں۔ امریکی انتخابات کا ایک طریقۂ کار رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکا سمیت دنیا کے جن ممالک کے خطوں میں کوئی منصوبہ زیر غور یا زیر عمل ہوتا ہے وہاں اپنی مرضی کی پارٹی اور حکمران مسلط کر دیا جاتا ہے۔ اس کے لیے انتخابی نظام کے جھول کو بھی استعمال کیا جاتا ہے اور ہر طرح کی دھاندلی بھی کر دی جاتی ہے۔ اس وقت امریکا کا مقابلہ چین سے ہے اور دونوں کے درمیان تنائو بھی بڑھایا جا رہا ہے۔ ممکن ہے کہ چین کے مقابلے میں مطلب کے فیصلے کرانے کے لیے امریکی انتخابات میں مداخلت کی جائے یا کی گئی ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ بائیڈن کے مقابلے میں ٹرمپ ہی چین کو زیادہ فوائد پہنچا رہے تھے۔جس طرح ٹرمپ کے اقدامات سے مشرق وسطیٰ میں ایران کو قوت اور مضبوطی ملی ہے جبکہ ظاہر ایسا ہوتا تھا کہ ٹرمپ چین کا سب سے بڑا دشمن ہے اور ایران پر آج حملہ کر دے گا یا کل۔ لیکن ان میں سے کوئی کام نہیں ہوا۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ وہ خطے میں ایسے مقام پر ہے کہ چین بھی گوادر تک پہنچنے اور گرم پانیوں کے ذریعے تجارت کرنے کے لیے پاکستان کے تعاون کا محتاج رہے گا۔ یہ محتاجی صرف اس صورت میں ختم ہو سکتی ہے کہ خدانخواستہ چین پاکستان پر قابض ہو جائے۔ بظاہر ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اسی طرح امریکا 20 برس افغانستان کے پہاڑوں میں سر ٹکرا کر واپسی کی راہ تلاش کر رہا ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستان اس واپسی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور اس کے مفادات کا تحفظ بھی کر سکتا ہے۔ امریکی انتخابی نتائج اصل چیز نہیں ہیں بلکہ پاکستانی قیادت کی فراست (اگر ہو تو) کا امتحان ہے کہ وہ امریکا کے نئے یا پرانے حکمرانوں سے پاکستان کے مفادات کا کس حد تک تحفظ کرا سکتے ہیں۔ ابھی امریکا میں یہ آواز نہیں اٹھی ہے کہ انتخابی نتائج میں تبدیلی کے نتیجے میں کسی قوت نے بائیڈن کو آگے بڑھایا ہے اور یہ قوت کون ہے۔ یعنی کوئی قوت ان کے پیچھے ہے۔ جب یہ سوال اٹھے گا وہاں سے امریکی نظام کی اصلاح یا مکمل تباہی کا آغاز ہو جائے گا۔