مذہب کا استعمال

206

مذہب انسانی زندگی کی بہت بڑی حقیقت ہے۔ دنیا میں انسانی زندگی کی ابتداء سے قبل ہی انسان اپنے مذہب سے آشنا ہوچکا تھا۔ یہی وجہ کے مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق انسان ایک مکمل دین کے ساتھ ہی دنیا میں آیا۔
دنیا جب نئے عالمی نظام (new world order) سے متعارف ہونا شروع ہوئی تو مذہب کو ذاتی زندگی کے معاملات تک محدود کرنے کے لیے تمام تدابیر اختیار کی گئیں ان تدابیر میں سر فہرست معیشت ہے۔ جو معاشرے مذہب سے بیگانہ ہوتے گئے نئے عالمی نظام کے خالقوں نے انہیں مستحکم کیا اور دنیا کے سامنے ماڈل بنا کر پیش کیا اس کے برعکس مذہبی معاشروں کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر مجبور اور بے کسی کی تصویر بنا دیا گیا۔ اس معاشی بدحالی کے آگے تمام مذاہب کے پیروکار ہتھیار ڈاتے چلے گئے اور نئے عالمی نظام کا حصہ بننے کے لیے اپنی مذہبی کتابوں میں تبدیلی تک کر بیٹھے، سمجھوتوں کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ چونکہ مسلم دنیا کے سوا کہیں سے بھی مزاحمت کا سامنا ان عالمی ساہوکاروں کو نہیں کرنا پڑا لہٰذا مسلمانوں کو نت نئے حربوں اور حملوں کا سامنا ہے جن میں معاشی حملوں کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور مذہبی حملے بھی شامل ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ 1874 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ ہوگیا لیکن یہ ہماری بھول ہے اب اس کا نام ملٹی نیشنل کمپنیاں ہے۔ ان کی آمد سے مقامی آبادی کو صرف روزگار ملنے کا ہی فائدہ ہوتا ہے جبکہ یہ ملکوں کا نہ صرف سرمایہ سمیٹتی ہیں بلکہ ان کی معاشرتی اقدار کو بدلنے کا فریضہ بھی بہت خوبصورتی سے انجام دے رہی ہیں۔ پاکستان کے تناظر میں دیکھتے ہیں ہمارا میڈیا دن رات جو کچھ پیش کررہا ہے کیا وہ ہماری مذہبی و معاشرتی اقدار سے میل کھاتا ہے؟؟ ڈرامے میں دکھائی جانے والی عورت کیا ہمارے معاشرے کی عورت ہے۔ ان سب کو یہی کمپنیاں سرمایہ فراہم کررہی ہیں اپنے اشتہارات کی صورت میں اور جو کچھ دکھا رہے ہیں اور سکھا رہے ہیں وہ کس تہذیب کے عکاس ہیں؟ جبکہ ہمارے معاشرے کی اکثریت یہ سب پسند نہیں کرتی تو پھر ہمارے ذہنوں میں زبردستی یہ سب کچھ کیوں انڈیلا جارہا ہے؟ ظاہر ہے کہ مطلوب مذہب سے دوری ہے، وقت کے ساتھ ساتھ اب یہ صورتحال ہے کہ ٹک ٹاک کی حمایت میں یہ بیانیہ ہے کہ مخالفت میں مذیب کے سوا کوئی اور دلیل ہے تو قابل قبول ہے اور یہ بھی کہ مذہب کا استعمال نہ کیا جائے۔ اسلام کی انفرادیت ہی یہ ہے کہ استعمال ہونے کے لیے آیا ہے یہ اوطاق میں سجانے کی چیز نہیں ہے اور نہ ہی صرف روح کی تسکین کا ذریعہ ہے۔ دین اسلام کا خاصہ ہی یہ ہے کہ یہ مکمل طریقہ زندگی ہے۔ یعنی اسلام نظر آئے بازاروں میں، عدالتوں میں، تھانوں میں، سیاست کے ایوانوں میں، جنگ کے میدانوں میں، تفریح گاہوں میں، میڈیا میں جی ہاں زندگی کے ہر شعبہ میں اسلام ہو اسلام ہی کا رنگ ہو، اسلام کے دائرے میں آنے کے بعد کوئی یہ کہنے میں حق بجانب نہیں کہ مذہب زندگی کا ذاتی معاملہ ہے۔ اس کے برعکس ہو یہ رہا ہے کہ اگر کسی معاملے میں مذہب کا حوالہ یا دین سے دلیل دی جائے تو شور مچ جاتا ہے کہ مذہب کی بات نہ کی جائے مذہب کو درمیان میں نہ لایا جائے، مذہب ذاتی معاملہ ہے۔
مذہب کو ذاتی معاملہ قرار دینے والوں کا پول اس وقت کھل جاتا ہے جب کوئی لڑکی اپنی مرضی سے اسلام قبول کرتی ہے تو یہاں جبری مذہب کی تبدیلی کا الزام لگا کر اس کے حق انتخاب پر قدغن لگادی جاتی ہے۔ مسلم معاشروں میں یہ سوچ یہ طرز عمل نا قابل قبول ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان کا تو وجود ہی دین اسلام کا مرہون منت ہے۔ اسلام ہے تو پاکستان ہے اور اسلام نہیں تو پاکستان نہیں اسی لیے پاکستان کے عوام کی اسلام سے محبت یقینی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیکولر اور لبرل عناصر بھی عوام کی توجہ یا پسندیدگی حاصل کرنے کے لیے اسلام کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے۔ مدینے جیسی ریاست کا نعرہ ہو یا نظام مصطفیٰ کے قیام کے لیے ریفرنڈم یا کعبہ کی چھت پر چڑھ کر نعرہ تکبیر بلندکرنے کا بار بار فخریہ تذکرہ (پرویز مشرف) کبھی کوئی شور نہیں ہوا۔ شاید اس کی وجہ یہ اطمینان ہو کہ یہ تو محض نعرہ ہے لیکن دلچسپب بات یہ ہے کہ جب دینی و مذہبی جماعتیں اسلام کی بات کرتی ہیں تو طوفان کھڑا ہو جاتا ہے کہ یہ مذہب کا استعمال کررہی ہیں۔ غالباً اس شور کی وجہ یہ خوف ہو کہ کہیں واقعتا اسلام کا نظام نہ آجائے۔
پاکستان ہو یا پوری دنیا مسلمان کی بقا صرف اسلام میں ہے اس حقیقت کا جتنی جلد ادارک کر لیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ صرف آج کے لیے نہیں بلکہ آنے والے کل کے لیے بھی۔ ورنہ ہم دیکھ ہی رہے ہیں عالمی اداروں کا وجود ہی مسلمانوں کے استیصال کے لیے ہے۔ یہ مسلمانوں کو مذہب کے استعمال سے روکتے ہیں اور مذہب کے نام پر ہی مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ مسلمانوں کی جان، مال گھر بار، ممالک مذہب معاشرت پر حملوں کے بعد اب بات محبوب ترین ہستی کی ناموس تک آپہنچی اور باقاعدہ ریاستی سطح سے حملوں کا آغاز ہوگیا ہے۔
• حقوق نسواں کا نعرہ اس وقت ختم جب عورت کا اپنی مرضی سے نقاب کا حق استعمال کرے۔