غالباً 1980 کی بات ہے کہ میں ہفت روزہ وقت کے دفتر میں بیٹھا کچھ کام کر رہا تھا کہ بھائی زاہد بخاری کا فون آیا انہوں نے فرمایا کہ فاروقی بھائی میں آپ کے پاس اپنے ایک ساتھی اطہر علی ہاشمی کو بھیج رہا ہوں انہوں نے قائد اعظم یونیورسٹی سے ایم ایس سی (انتھرا پالوجی) کیا ہوا ہے انگریزی اور اردو دونوں اچھی ہیں اور لکھنے پڑھنے کا ذوق بھی ہے۔ انہیں صحافت میں کہیں سیٹل کروانا ہے اسی فون کال میں ہاشمی صاحب سے وقت ملاقات طے ہوا اور وہ پھر ’وقت‘ کے دفتر تشریف لائے۔ ایک گورا خوبصورت قدر آور بندہ شائستہ و شگفتہ شخصیت کے مالک میرے سامنے بیٹھے تھے تھوڑی دیر میں اندازہ ہوا کہ طبیعت میں مزاح اور زبان دانی شامل ہے جس کا اظہار وہ گفتگو میں کرتے رہتے ہیں۔ بھائی اطہر ہاشمی کی ذہانت اور انداز گفتگو نے ہمیں ایک مستقل دوست دے دیا۔ فوری طور پر یہ طے ہوا کہ وہ ہفت روزہ وقت سے اپنی صحافت کی ابتداء کریں گے۔ وقت میں رہتے ہوئے ہاشمی صاحب وقت کے نمائندوں کی رپورٹوں، آنے والے مختلف مضامین کی ادارت وغیرہ کیا کرتے تھے اور کچھ ہی دنوں میں انہوں نے خود بھی اپنا کالم لکھنا شروع کر دیا شاید دو سے تین ماہ گزرے ہوں یا چھ ماہ، ہاشمی صاحب کا تقرر روزنامہ جسارت کے میگزین سیکشن میں بھی ہوگیا جو ہمارے دفتر کے قریب ہی تھا جہاں آج کے بڑے بڑے نام اپنی صحافت کے ابتدائی دنوں میں تھے۔ ہاشمی صاحب دونوں جگہ کام چلاتے رہے بعض اوقات مجھے ان کا کالم یا تدوین شدہ میٹریل لینے کے لیے ان کے گھر بھی جانا پڑتا تھا ہاشمی صاحب پہلے لیاقت آباد ڈاکخانے کے پاس اپنے والدین کے ساتھ رہتے تھے کچھ عرصہ کے بعد ان کی شادی ہو گئی جس میں ہمیں بھی شریک ہونے کا شرف حاصل ہے ہاشمی صاحب کی بیگم یعنی ہماری بھابھی نے کراچی یونیورسٹی سے فزیالوجی میں ایم ایس سی کیا تھا جس کے بعد وہ ڈائو میڈیکل کالج میں لیکچرر ہو گئیں۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد ہاشمی صاحب فیڈرل بی ایریا میں منتقل ہوگئے میں ان دنوں گلشن اقبال میں رہتا تھا تو اکثر اتوار کو گھر کے لیے سودا سلف لانے کے لیے واٹر پمپ کے بازار آنا ہوتا تھا لیکن بازار جانے سے قبل میں ہاشمی صاحب کے گھر آجاتا جہاں ہاشمی اس وقت عموماً سو رہے ہوتے تھے میری آمد پر انہیں اٹھایا جاتا پھر ہم دونوں بیٹھ کر چائے پر گپ شپ کرتے اور میں ہاشمی صاحب سے ہفت روزہ وقت کا تدوین شدہ میٹریل لے کر واپس واٹر پمپ سے ہوتے ہوئے گھر آجاتا۔ ہفت روزہ وقت میں ہاشمی صاحب اور ہمارا سال ڈیڑھ سال کا ساتھ رہا اس دوران ان سے گپ شپ رہتی اور لطیف مزاح اور شفتگی کا لطف اٹھایا جاتا۔ بے شمار واقعات ہیں انتہائی سادہ طبیعت شخص لیکن مزاح کے مواقع بہت کم ہاتھ سے جانے دیتے ان دنوں ایک نوجوان ادیب دفتر جسارت آیا کرتے تھے اور عموماً اپنے مطالعہ اور ادب کا رعب جھاڑا کرتے تھے باتوں ہی باتوں میں ایک دن ہاشمی صاحب نے بہت سنجیدگی سے ان صاحب سے کہا کہ میں مشکل میں پھنس گیا ہوں کہ سمجھ میں نہیں آرہا بنت عنب کس ملک کی شہزادی تھی۔ آپ کا تو اتنا مطالعہ ہے کہ میری رہنمائی فرمائیے کہ میرا مسئلہ حل ہو جائے۔ ان صاحب نے جبکہ دیکھا کہ سبھی لوگ خاموش ہو گئے ہیں اور اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ انہیں پتا ہی نہیں ہے تو انہوں نے ایک تکا مار دیا۔ ہاشمی صاحب نے بڑی سنجیدگی سے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ نے میری الجھن ختم کر دی لیکن کچھ دیر کے بعد جب وہ صاحب ملاقات ختم کر کے دفتر جسارت سے جانے لگے تو انہیں نصیحت کی کہ بھائی آپ اتنا علمیت وغیرہ کا اظہار کرتے ہیں تو کچھ پڑھ بھی لیا کریں اور اس کے بعد انہیں بنت عنب کے معانی بتا دیے۔ 1981ء میں ہفت روزہ وقت بند ہو گیا میں کراچی یونیورسٹی میں افسر تعلقات عامہ بن گیا۔ عملی صحافت سے میرا تعلق یوں کہنا چاہیے کہ ختم ہو گیا لیکن ہاشمی صاحب اور ان کے فیملی سے تعلقات قائم رہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہم اور وہ فیملی فرینڈ بن گئے کبھی کبھی ہاشمی صاحب بھابھی کے ساتھ ہمارے گھر گلشن اقبال آیا کرتے تھے اور میں بھی اپنی بہنوں کے ساتھ کبھی کبھار ملنے ہاشمی صاحب کے گھر جایا کرتا تھا یا بھابھی کو کبھی فزیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں آنا ہوتا وہ پھر میرے دفتر بھی آیا کرتیں۔ ہاشمی صاحب خاندانی اعتبار سے برصغیر کی ایک اہم دینی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ان کے چھوٹے بھائی مولانا راحت علی ہاشمی کراچی کے معروف عالم ہیں اور دارالعلوم کورنگی میں مولانا تقی عثمانی کی ماتحتی میں کام کرتے ہیں جبکہ بھابھی کا تعلق کسی حد تک حیدر آباد دکن سے ہے۔
کراچی یونیورسٹی سے 1985ء میں استعفے کے بعد میرا تقرر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں ہوا۔ اسلام آباد میں ہاشمی صاحب اور ان کے خاندان کی میزبانی کا مجھے تین سے چار بار موقع ملا۔ ایک مرتبہ ہاشمی صاحب بھابھی کے ساتھ اسلام آباد اور شمالی علاقہ جات گھومنے پھرنے کے لیے آئے تھے میں نے ان کے لیے گاڑی وغیرہ کا انتظام کیا اس تفریحی دورے میں وہ میری چھوٹی بہنوں کو بھی اپنے ساتھ لے گئے ایک اور مرتبہ ہاشمی صاحب ایک کوسٹر میں پوری فیملی جس میں تقریباً 15 سے 20 افراد تھے پاکستان گھومنے کے لیے نکل پڑے اسلام آباد میں ہم ان کے میزبان تھے فیصل مسجد کے ساتھ اسلامی یونیورسٹی کے جو گیسٹ ہائوس تھے ہم نے انہیں وہاں ایک رات ٹھیرایا۔ ایک مرتبہ بھابھی اپنی بہن کے ہمراہ اسلام آباد تشریف لائیں اپنے کسی عزیز کے ہاں ٹھیریں میں ان دنوں یونیورسٹی کا ڈائریکٹر تعلقات عامہ تھا اور ہاشمی صاحب جسارت کے ایڈیٹر تو میں نے وائس چانسلر سے اجازت لے کر انہیں ڈاکٹر طاہر امین سے ملاقات اور تفریحی مقامات کی سیر کروائی۔ اطہر ہاشمی کی بیگم ڈاکٹر نیلوفر ہاشمی نے کچھ عرصہ ایک رفاحی تنظیم جو سینئر سیٹزن کے لیے تھی وہ بھی چلائی اس میں انہوں نے تھوڑے بہت وسائل جمع کیے ایک اولڈ ہوم قائم کیا۔ اسلام آباد سے میں جب بھی کراچی جاتا تھا تو اکثر ہاشمی صاحب سے ان کے گھر دوپہر میں ملنے کے لیے چلا جاتا جہاں معمول کے مطابق ہلکی پھلکی گفتگو ہوتی تھی۔ کبھی کبھی دفتر جسارت میں بھی ملاقات ہوئی ہے۔ وہ مجھے اکثر صحافت میں واپسی کا مشورہ دیا کرتے تھے جب کہ ان کی بیگم ہاشمی صاحب کی صحافت سے ایک عرصے تک تنگ رہیں ہاشمی صاحب اور ان کی بیگم کی ملاقات صرف چھٹی کے دن ہوا کرتی تھی کیونکہ جب بھابھی ڈائو میڈیکل کالج سے چار بجے کے قریب اپنے گھر آتیں تو ہاشمی صاحب اپنے دفتر کے لیے جا چکے ہوتے تھے اور جب ہاشمی صاحب سو رہے ہوتے تھے کیونکہ وہ گیارہ بجے تک سورہے ہوتے تھے اس وقت بھابھی صبح ملازمت کے لیے چلی جاتیں تھی۔ صحافت میں ہاشمی صاحب کی ملازمت سے تنگی کی ایک وجہ جسارت میں تنخواہوں کی کمی بھی تھی بھابھی کا کہنا یہ تھا کہ ہاشمی جتنے باصلاحیت ہیں اگر یہ جسارت چھوڑ کر کسی اور اخبار کو جوائن کر لیں تو انہیں کئی گنا زیادہ معاوضہ مل سکتا ہے انہیں بڑے اخبارات کی جانب سے خطیر معاوضے کے ساتھ ملازمت کی آفرز بھی ملیں۔ میری معلومات کی حد تک ایک طویل عرصے تک ہاشمی صاحب کی تنخواہ 30 سے 35ہزار سے اوپر نہیں گئی۔ اس کے باوجود اطہر ہاشمی ملازمت تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں تھے اور دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ انہیں اس مقصد سے بھی گہرا شعوری لگائو تھا جن کے لیے جسارت کو شائع کیا گیا۔
ہاشمی صاحب کے انتقال پر مجھے ایک بات کا ضرور صدمہ رہے گا کہ عموماً تو جب بھی میں کراچی جاتا تھا ہاشمی صاحب سے ایک ملاقات ضرور کرتا تھا گویا تین سے چھ مہینے میں ایک ملاقات یا پھر فون پر خیر خیریت لیکن ہاشمی صاحب کے انتقال سے قبل ایک سال میں میں دو مرتبہ کراچی گیا چند انتہائی ضروری کاموں کے سلسلے میں، ہاشمی صاحب سے فون پر بات بھی ہوئی لیکن میں ان سے ان کے دفتر یا گھر پر ملاقات کے لیے نہیں جا سکا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور مرحوم نے دین حق اور سچائی کے لیے جو جدوجہد کی اس کو قبول فرمائے۔