کراچی میں درجن سے زاید نادرا سینٹر بند، عوام مشکلات کا شکار

63

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) کراچی میں ایک درجن سے زاید نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اٹھارٹی (نادرا) کے چھوٹے سینٹرز کی بندش سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، ڈھائی کروڑ سے زاید آبادی والے شہر میں نادرا کے صرف 3 میگا سینٹرز میں عوام کی طویل قطاریں، شناختی کارڈز کے حصول اور دیگر دستاویزات کے لیے گھنٹوں کھڑے رہنے پر مجبور ہیں۔ لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑی خواتین، بزرگ اورنوجوانوںکے ساتھ نادرا کے عملہ کی بدتمیزی روز کا معمول بن گیا ہے۔ نادرا کی جانب سے کراچی کے مضافاتی علاقوں میں فراہم کی جانے والی موبائل وین سروس بھی بند کردی گئی ہے۔ ترجمان نادرا بھی کراچی میں نادرا موبائل وین سروس فراہم کرنے اور اس کی تعداد کے حوالے سے لاعلم ہیں،دوسری جانب نادرا نے اسلام آباد،کوئٹہ اور ملتان میں جدید سہولیات سے آراستہ نادرا کی موبائل وین فراہم کردی ہیں، اس حوالے سے نادرا سینٹر میں موجود شہریوں نے جسارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں قائم نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اٹھارٹی (نادرا) میں ہمیں شناختی کارڈز کے حصول میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، نادرا مراکز میں غیر ضروری کاغذات طلب کر کے عوام کو پریشان کرنااور لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑے شہریوں کے ساتھ نادرا کے عملے کی بدتمیزی کا سلسلہ جاری ہے۔شہریوں کا کہنا تھا کہ جس طرح دیگرسرکاری ادارے لوٹ مار، بدعنوانی اور عوام کے استحصال کا گڑھ بن چکے ہیں اسی طرح نادرا بھی عوام کے مسائل کو کم کرنے کے بجائے اس میں اضافہ کررہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا براہ راست واسطہ نادرا کے نچلے درجے کے ملازمین اور افسران سے پڑتا ہے جو شہریوں کو اتنا پریشان کرتے ہیں کہ سائل کو مجبوراً رشوت دینی پڑتی ہے یا پھر ایجنٹوں کے ذریعے کام کرانا پڑتا ہے۔ نادرا سینٹرز میں عوام کی طویل قطاریں شناختی کارڈز کے حصول اور دیگر دستاویزات کے لیے گھنٹوں کھڑے رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ غیر ضروری کاغذات کے نام پر شہریوں خصوصاً خواتین کو بے حد پریشان کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کاغذات نہ دینے پر رشوت مانگی جاتی ہے اور تذلیل بھی کی جاتی ہے۔ ایک طرف حکمران عورت کو خودمختار بنانے کی بات کرتے ہیں مگر دوسری طرف سرکاری ملازمین عورت کو مردوں کی عملی غلامی کی طرف دھکیلتے ہیں۔ اگر ایک ماں اپنے بچوں کا ب فارم بنوانے نادرا آفس جاتی ہے اور بچوں کے پیدائشی سرٹیفکیٹ اور اپنا شناختی کارڈ پیش کرتی ہے تو اب نادرا اور ملکی قوانین کے تحت بچوں کے ب فارم بنانے میں کوئی رکاوٹ درپیش نہیں ہونی چاہیے۔ مگر نادرا کا عملہ جس میں میگا سینٹرز بھی شامل ہیں ماں سے بچوں کے والد کو پیش کرنے کا حکم دیتاہے۔ یہ حکم مطلقہ اور ایسی خواتین کے لیے جن کی شوہر سے ناچاقی چل رہی ہو سخت اذیت کا باعث بنتاہے جو خود محنت مزدوری یا ملازمت کر کے بچوں کو پال پوس رہی ہوتی ہیں۔ نادرا کی موبائل وین بنانے والی کمپنی احمد میڈکس کے مارکیٹنگ منیجر تاثیر احمد نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اٹھارٹی (نادرا) کی جانب سے ہمیں10موبائل وین کے آرڈر دیے گئے ہیں اب تک ہم نے 3 موبائل وین تیار کر کے نادرا کے حوالے کردیں ہیں مزید 7وین پر کام تیزی سے جاری ہے جو آئندہ چند ہفتوں میں تیار کر کے نادرا کے حوالے کردی جائے گی ،انہوں نے کہا کہ موبائل وین ڈیٹا بیس سے منسلک ہے، اس میں اسکینر، کیمرے اور دیگر ضروری آلات نصب کیے گئے ہیں۔ دوسری جانب نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اٹھارٹی (نادرا) کے ترجمان فائق نے جسارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم ضرورت کے مطابق نادرا کی وین مختلف کمپنیوں سے تیا ر کراتے ہیں اور اسے پاکستان کے مختلف علاقوں میں بھیجتے ہیں ،یہ موبائل وین ان علاقوں میں بھیجی جاتی ہیں جہاں کے شناختی کارڈ دفاتر پر بے انتہا رش ہو یا شہر سے دور ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ نادرا موبائل وین کے ذریعے نئے کارڈز بنانے کے علاوہ پرانے کارڈز کی تجدید ، ایڈریس کی تبدیلی ،نام اور تصویر کی تبدیلی ، گمشدہ کارڈز کے علاوہ نادرا موبائل وین پر وہ تمام سہولیات فراہم کی جاتی جو عام طور پر نادراآفس میں مہیا کی جاتی ہیں۔ کراچی میں موبائل وین کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مجھے اس حوالے سے معلومات حاصل کرنی پڑے گی مجھے اس بارے معلوم نہیں ہے،انہوں نے کہا کہ بہت جلد نادرا کے چیئر مین کراچی کے نادرا سینٹرز کا دورہ کریں گے اور بند ہونے والے نادرا سینٹرز کو جلد کھولا جائے گا، ہمیں کراچی لوگو ں کا احساس ہے،خواتین اور بزرگ شہریوں کو دھکے کھانے اور پریشانی سے بچانے کے لیے کراچی کے مختلف علاقوں میں موبائل سروس کی سہولیات جلد فراہم کی جائے گی۔