دنیا کی نظریں امریکی انتخابات پر ہیں لیکن پردے کے پیچھے جس طرح وہاں بہت کچھ ہورہا ہے اسی طرح پاکستان میں بھی بہت کچھ ہورہا ہے۔ چند ماہ قبل جو کام شروع کیا گیا تھا اب وہ کم و بیش مکمل ہے۔ پاکستان میں دو پارٹیوں نے مصنوعی طور پر بڑی پارٹی بن کر دو لیڈروں پر مشتمل نظام تیار کیا تھا یا مستحکم کیا تھا۔ اس میں دو پارٹیاں باریاں لگاتی تھیں ایک کو ناکام قرار دے کر دوسرا آتا اور پھر اسے ہٹا کر پہلے والا آتا تھا۔ کبھی کبھی مزا بدلنے کو مخلوط کھچڑی نما کوئی چیز بنا دی جاتی تھی جس کی وجہ سے 1986ء سے 2018ء تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) 34 برس تک سیاست پر قبضہ جمائے بیٹھے رہے۔ اسی طرح دو لیڈر نواز شریف اور بے نظیر میدان میں رہے اور کسی کو آگے نہیں آنے دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کو راستے سے ہٹایا گیا تو میاں نواز شریف اکیلے لیڈر بن گئے لیکن آصف علی زرداری نے بڑی ہوشیاری سے متبادل لیڈر کا مقام حاصل کرلیا اور تقریباً دس برس یہ دونوں لیڈر کے طور پر سامنے رہے۔ اب بڑھتی عمر اور سیاسی دور حکمرانی کی غلطیوں اور غلط کاریوں کا بوجھ لیے بیٹھے ہیں۔ ان دونوں کی پوزیشن یہ ہے کہ لوگ پہلے پچھلے وعدے یاد دلاتے ہیں، کوئی نہ کوئی سوال آجاتا ہے۔ چنانچہ ان دونوں پارٹیوں نے نہایت ہوشیاری سے اپنی اپنی نئی قیادت متعارف کرانے کا فیصلہ کیا اور اب دونوں کسی حد تک بلکہ بڑی حد تک نئی قیادت متعارف کرواچکے۔ اب پیپلز پارٹی کی قیادت بلاول اور مسلم لیگ کی قیادت مریم نواز کررہی ہیں۔ کچھ دنوں میں دونوں کو تنہا سیاسی قیادت کرنے کے مواقع بھی دیے جائیں گے۔ اپوزیشن کی دیگر جماعتیں اس عظیم منصوبے کے لیے بڑے خلوص سے استعمال ہورہی ہیں۔ اور ان پارٹیوں کے لیڈروں کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ن لیگ میں البتہ ایک دو متبادل تھے لیکن وہ عارضی تھے۔ شہباز شریف قائد بن بھی جاتے تو کتنے دن چلتے یا شاہد خاقان اور کسی اور کو متبادل قیادت دے دی جاتی تو بھی عارضی انتظام ہوتا۔ دونوں پارٹیوں کو چلانے والوں یا ان دونوں کو ہانکنے والوں نے ان کی اور اپنی سہولت کے لیے نیا انتظام کردیا ہے۔ یہ جمہوریت کی تحریک ہے نہ این آر او کی تحریک ہے۔ حکومت کرپشن کے خلاف کام کررہی ہے نہ مافیا سے لڑ رہی ہے، جسے جو کردار دیا گیا ہے اس کو وہی ادا کرنا ہے۔ اس سے زیادہ نہ کم۔ یہ بات بھی لوگوں کے لیے حیرت کا باعث ہوگی کہ موجودہ حکمران بھی ایک انتظام کے طور پر لائے گئے ہیں۔ یہ جائیں گے تو ایسے غائب ہوں گے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اگلے انتخابات کے بعد ملک کا سیاسی نقشہ یوں تیار کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایک بار پھر تازہ دم مسلم لیگ (ن) اور تازہ دم پیپلز پارٹی مریم نواز اور بلاول کی قیادت میں سیاسی منظرنامے کو اغوا کرلیں اور حقیقی مسائل پھر پیچھے رہ جائیں اور سیاست ان دونوں پارٹیوں کے گرد گھومنے لگے، لیڈر کے طور پر یہ دونوں اچھے خاصے اسٹیبلش کردیے گئے ہیں۔ دیکھنا یہی ہے کہ عوام اس کھیل کو کس حد تک سمجھے ہیں۔ عمران خان نواز شریف کے ہر حملے کو فوج کی طرف دھکیل رہے ہیں بلکہ یوں کہا جائے کہ فوج کے پیچھے چھپنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک بہت پرانی بات روز دہراتے ہیں کہ این آر او نہ ملنے پر نواز شریف نے لندن سے فوج کے خلاف سازش شروع کردی۔ لیکن یہ نہیں بتاتے کہ نواز شریف لندن گئے کیسے۔ ان کو ویزا، ایف آئی اے کلیئرنس، ائرپورٹ پر کلیئرنس کس نے دلوائی۔ وہ کہتے ہیں کہ سیاسی مخالفین نے ملک میں سرکس لگا رکھا ہے، جو چاہیں کرلیں لوٹا ہوا پیسہ واپس لائے بغیر نہیں چھوڑوں گا… مگر کس کو… نواز شریف تو باہر ہیں پیسہ لوٹنے کا الزام ان پر ہے، آصف زرداری ملک میں ہیں لیکن ان سے پیسہ نکلوانے کے بجائے ان کے کام نکلوائے جارہے ہیں۔ وزیراعظم کے بیان کا بھیانک ترین جملہ یہ ہے کہ پہلی بار عام آدمی مطمئن ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بیان انہوں نے مریخ کے بارے میں دیا ہے۔ کیونکہ وہاں جتنے عام آدمی ہیں وہ مطمئن ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مریخ پر عمران خان، نواز شریف، زرداری اور دیگر کرپٹ سیاستدان نہیں ہیں۔ ارے بھائی عمران خان صاحب لوگوں کو روٹی تک تو دے نہیں سکتے۔ عام آدمی کے مطمئن ہونے کی بات کررہے ہیں۔ وہ ذرا بتائیں کہ کس طرح عام آدمی مطمئن ہے۔ بیروزگاری، مہنگائی، ٹیکس پر ٹیکس، کس چیز سے اطمینان حاصل ہوگا۔ دودھ سو روپے فی لیٹر سے زیادہ میں مل رہا ہے۔ غریب کے گھر میں اگر سرکاری پالیسی کے مطابق بھی دو ہی بچے ہوں تو بھی روز کے انڈے دودھ ڈبل روٹی کا خرچہ دو سو روپے سے کم نہیں۔ انڈے 170 روپے درجن مل رہے ہیں۔ آلو پیاز 80 اور سو روپے میں ٹماٹر دو سو سے خدا خدا کرکے 150 تک آیا ہے۔ عام ہوٹل سے عام آدمی کی خوراک چائے پراٹھا بھی 100 روپے سے کم نہیں ہے۔ عمران خان بتائیں کس ملک کا عام آدمی مطمئن ہے۔ کیا عام آدمی اس رپورٹ سے مطمئن ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک ہفتے میں 14 اشیائے ضروریہ مہنگی ہوگئیں۔ کہاں سے مطمئن ہوگا عام آدمی۔ دنیا میں اِکا دُکا ممالک ایسے ملیں گے جہاں عام آدمی مطمئن ہو۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہاں حکومت نے کسی عام آدمی کی گنجائش ہی نہیں رکھی ہر شہری ان کے لیے خاص آدمی ہے۔ کینیڈا، سویڈن وغیرہ کے بارے میں ایک حد تک کہا جاسکتا ہے کہ وہاں کا عام آدمی مطمئن ہے۔ عمران خان کے مختصردور حکومت میں عام آدمی یا مڈل کلاس بالکل ختم ہوگئی ہے۔ اب اونچی کلاس یا پسی ہوئی ہے۔ اب شکل یہ ہیکہ خبریں اس طرح چلوائی جارہی ہیں جیسے حکومت نے کوئی بہت بڑا تیر مار لیا ہے۔ ن لیگ کے عبدالقادر بلوچ کسی وجہ سے جو سب سمجھ سکتے ہیں مسلم لیگ چھوڑ گئے۔ ثنا اللہ زہری نے بھی پارٹی چھوڑ دی۔ اس کو مسلم لیگ میں پھوٹ کی خبر کے طور پر چلایا جارہا ہے۔ عملاً تو ایسا ہی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) سے آٹھ دس لوگوں کو نکالا جاتا ہے یا وہ خود پارٹی چھوڑ جاتے ہیں اور یہ عام بات ہے۔ پیپلز پارٹی سے بھی لوگوں کا جانا معمول ہے۔ جب جنرل پرویز مشرف صاحب کو دس لوٹوں کی ضرورت پڑی تھی تو فیصل صالح حیات کی قیادت میں دس لوٹے باعزت طریقے سے پیپلز پارٹی چھوڑ کر ق لیگ میں شامل ہوگئے تھے۔ پارٹی میں پھوٹ کا شور مچا نہ بے نظیر بھٹو نے کسی کو نوٹس دیا۔ کچھ لوگ باعزت واپس بھی آگئے۔ اب عمران خان کو یہ معاملات سہنے ہیں یہ کام کب سے ہوگا اس کے لیے وقت کا تعین کوئی اور کرے گا۔ویسے بھی خان صاحب کو کوئی فرق نہیں پڑے گا جس نے جوق در جوق ان کے پاس لوٹے بھیجے تھے وہی واپس بھی بلا لے گا۔اصل بات تو یہ ہے کہ مصنوعی قیادت کو عوام کیوں قبول کر لیتے ہیں۔ اس ملک میں کسی نوجوان پر چوری یا قتل کا الزام ہو تو اس کے بوڑھے باپ، یا بیٹے کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ عورتوں کو تھانے لے جایا جاتا ہے تو پھر جن لوگوں پر اربوں کھربوں لوٹنے کا الزام ہے ان کی اولادوں کو لیڈر کے طور پر کیسے قبول کر لیا جائے۔ عوام حقیقی قیادت کو جانتے بھی ہیں لیکن اس کو آگے نہیں لاتے، اسے آگے لائے بغیر کوئی مطمئن نہیں ہوگا۔