امیر تنظیم ِ اسلامی شجاع الدین شیخ نے کہا ہے کہ ’’فرانس سمیت پورا عالم کفر اسلام سے خوفزدہ ہے اور ان کو اپنا کھوکھلا نظام زمین پر نظر آرہا ہے۔ مغربی دنیا نے توہین رسالت کو ایک کھیل بنا رکھا ہے۔ رسول اللہؐ کو دنیا کے تمام مسلمان اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیں اور اس کا حکم اللہ نے دیا ہے۔ سورہ احزاب کی آیت نمبر 6 میں اللہ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ نبیؐ اہل ِ ایمان کے لیے ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ عزیز ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کی بنیاد اللہ کے رسول کی محبت ہے اور اس بنیاد پر اسلام کی پو ری عمارت کھڑی ہے‘‘۔ شجاع الدین صاحب کی یہ ایمان افروز باتیں اپنی جگہ لیکن شاید ایسا نہیں جس طرح وہ فرما رہے ہیں۔ آپؐ کی توہین تو شاید ہی کوئی مسلمان برداشت کر سکے لیکن جہاں تک کچھ کر گزرنے والی بات ہے وہ انفرادی سطح پر تو گاہ بگاہ ضرور نظر آتی ہے، اجتماعی طور پر پوری دنیا کے مسلمان ایسا کرتے دکھائی نہیں دیتے جس کی وجہ سے عالم کفر کے حوصلے روز بروز بڑھتے چلے جا رہے ہیں جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ چند سال قبل تک تو اسلام یا نبی کریمؐ کی توہین کرنے اور قرآن نذر آتش کیے جانے کے واقعات شاذ و نادر ہی ہوا کرتے تھے لیکن اب عالم یہ ہے کہ آئے دن دنیا کے مختلف ممالک میں یہ واقعات ایک تسلسل کے ساتھ ہونے لگے ہیں اس لیے یہ گمان کر لینا کہ عالم کفر مسلمانوں سے واقعی خوفزدہ ہے، سو فی صد درست بھی نہ ہوگا بلکہ ایسا لگنے لگا ہے کہ ان کی شر پسند طبیعت ہر روز ایک تماشا کرکے اور مسلمانوں کا اپنے اپنے ممالک میں جلسے جلوس نکالنا دیکھ کر لطف اندوز ہوتی ہے اور وہ مسلمانوں کی بے بسی پر قہقہے بلند کرکے اپنے اندر چھپے شیطان کو خوش دیکھ کر جشن منانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ میرے اسی خیال کی تصدیق کرتے ہوئے شجاع الدین شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ ’’فرانس کے صدر کے بیان کے خلاف عالم اسلام کو اُٹھنا ہو گا تاکہ وہ ناموسِ رسالت کا تحفظ کر سکیں اور پوری دنیا کو بتا دیں کہ مسلمانوں کے لیے ناموسِ رسالت کی کیا اہمیت ہے‘‘۔
یہ بات طے ہے کہ جب تک پوری دنیا کے مسلمان اپنے اندر یکجہتی اور اتحاد پیدا نہیں کریں گے اس وقت تک یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اہل کفر کے خلاف کوئی موثر کارروائی کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ جب جب کسی بھی ملک کی جانب سے مسلمانوں کے دلوں کو چھیدا گیا، قرآن کو نذر آتش کیا گیا، پیغمبر اسلام کی توہین و تضحیک کی گئی یا شعائر اسلامی کا مذاق آڑایا گیا، مسلم ممالک نے اگر اس پر کوئی بہت بڑا رد عمل دیا بھی تو دل چیرنے والے ممالک کے سفرا کو بلا کر ان کے ہاتھ میں کوئی مراسلہ تھمادیا، اعلیٰ حکام کی جانب سے مذمتی بیانات داغ دیے گئے یا پھر ان ممالک کی مصنوعات کو اپنے اپنے اسٹوروں، گھروں اور دکانوں سے نکال کر دریا برد کر دیا گیا۔ لیکن ایسا سب کچھ سیاسی مصلحتوں یا کسی فوری جذبے کے تحت ہی کیا ہوا دکھائی دیا کیونکہ پھر وہی ساری اشیا مارکیٹ میں پہلے سے بھی زیادہ مقدار میں سجی سجائی نظر آئیں اور خارجی تعلقات بھی پہلے سے کہیں زیادہ خوشگوار انداز میں دکھائی دیے۔ اگر وقتی جذبوں اور سیاسی و بین الاقوامی مجبوریوں کو سامنے رکھا جائے تو ہر لحاظ سے سارے جلسے جلوس، مذمتی بیانات اور اشیا کی دریا بردی سے خود مسلم ممالک کے مسلمانوں کو ہی انفرادی یا اجتماعی نقصان تو ضرور پہنچا، ان ممالک کا کبھی کچھ نہیں بگڑ سکا جہاں ایسی شیطانی حرکات کو دہرایا جاتا رہا ہو۔ علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا تھا کہ
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
مسلمانوں کو یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ جب تک وہ اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہوں گے، اپنے سرمائے کو اپنے ملک کے بینکوں سے زیادہ مغربی ممالک میں محفوظ سمجھتے ہوں گے، اپنے اللہ کے ساتھ جڑنے کے بجائے اللہ کے منکروں کو دوست سمجھتے رہیں گے، اپنی زرعی، مصنوعی اور معدنی پیداوار کو بڑھانے کی کوشش نہیں کریں گے اور اپنے ملک کا دفاع اپنے ہی بنائے ہوئے ہتھیار تیار کرکے کرنے کے قابل نہیں ہوںگے وہ کسی بھی لحاظ سے اہل کفر کو خوفزدہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
مسلمان دنیا کی کل آبادی کا 30 فی صد ہونے کے باوجود پوری دنیا کے آگے ہاتھ پھیلائے کھڑا ہونا، اپنے اپنے ممالک میں اپنے ہی سرمایا داروں کا اعتماد متزلزل رکھنا، دین پر عمل نہ کرنا، ہر قسم کی خرافات میں مبتلا ہونا، جھوٹ اور مکر و فریب کو اپنا شعار بنا لینا، اپنی ہی رعایا کے ساتھ امتیازی سلوک مروج رکھنا اور کسی بھی ظلم و زیادتی کے خلاف کسی بھی قسم کی مؤثر کارروائیوں کو عمل میں نہیں لانا جیسے اقدامات کے بعد یہ گمان کر لینا کہ عالم کفر ان سے خودزدہ ہو جائے گا یا وہ دنیا کو اپنے زیر نگیں کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، ایک بھول کے سوا کچھ نہیں۔ ضروری ہے کہ تمام عالم اسلام اس فریب سے باہر نکلے اور اپنے آپ کو اپنے پیروں پر کھڑا کرے۔
دنیا کا کوئی ایک بھی ترقی یافتہ ملک مسلمانوں کی ریاست کے پاسنگ کا بھی نہیں تھا۔ اگر یہ سب ہم سے آگے نکل گئے ہیں تو یہ بات پورے عالم اسلام کے لیے غور و فکرکا مقام ہے لہٰذا اس پر جتنا بھی غور کیا جائے وہ کم ہے کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں جس پر چل کر ہم دنیا کی برابری کرنے کے قابل ہو سکتے ہوں۔ علامہ فرما گئے ہیں کہ
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سر آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی