برطانیہ ان جانے مستقبل سے دوچار

338

پچھلے ہفتہ برطانیہ میں کورونا وائرس سے چھ لاکھ اٹھارہ ہزار سے زیادہ افراد متاثر ہوئے جس کے بعد وزیر اعظم بورس جانسن نے ایک مہینے کے لیے سخت لاک ڈاون کا اعلان کیا ہے، انہیں اپنی غلطی کا احساس ہے کہ گزشتہ جنوری میں جب وبا نے پھیلنا شروع کیا تھا تو اس وقت انہوں نے لاک ڈاون کا اعلان نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے وبا تیزی سے بڑھی اور ایک ہزار سے زیادہ افراد اس وبا کا شکار ہو گئے۔ اس وقت ہر روز کورونا سے 136افراد ہلاک ہورہے ہیں اور اب تک 46ہزار 800 سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ فی الحال ابھی اس وبا سے چھٹکارے کی راہ نظر نہیں آتی، اور کورونا کی ویکسین کی تیاری کی بھی کوئی امید نہیں۔ یورپی یونین کا کہنا ہے کہ ویکسین اپریل سے پہلے حاصل نہ ہو سکے گی۔ یورپ میں ویکسین کی تیاری کے بعد برطانیہ میں یہ ویکسین کب تک دستیاب ہو سکے گی اس بارے میں اس وقت کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ برطانیہ میں بھی کورونا ویکسین کی تیاری کی کوششیں جاری ہیں لیکن ابھی کسی خاطر خواہ پیش رفت کی امید نہیں۔ غرض اس وقت برطانیہ ایک ان جانے مستقبل سے دوچار ہے جب کہ کورونا وائرس کی تیسری لہر کا خطرہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ کورونا کی وجہ سے سب سے زیادہ تباہی کا سامنا معیشت کوکرنا ہے۔ ایک طرف کورونا کی ہلاکتوں کی وجہ سے افرادی قوت سکڑ گئی ہے اور اسی کے ساتھ بے روزگاری میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ جون سے لے کر اگست تک بے روزگاری میں ساڑھے چار فی صد اضافہ ہوا ہے جس کے بعد اس وقت بے روزگاروں کی تعداد پندرہ لاکھ تک پہنچ گئی ہے، سب سے زیادہ اضافہ سولہ سال سے لے کر چوبیس سال کے نوجوانوں میں ہوا ہے۔ اس وقت ماہرین معیشت پریشان ہیں کہ کورونا کے خاتمہ کے بعد نوجوانوں کو کیوں کر روزگار فراہم کیا جا سکے گا۔ معیشت اس وقت دم توڑتی نظر آتی ہے اور اس کی بحالی جلد ممکن نہیں۔ ویسے بھی کورونا کی وجہ سے دفتری نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔ گھر سے کام کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ ایسا لگتا ہے کہ کورونا کے بعد بھی جاری رہے گا کیوں کہ فی الحال لاک ڈاون کے سلسلے سے نجات ممکن نظر نہیں آتی۔ کورونا کی وجہ سے تعلیمی نظام بھی بری طرح سے متاثر ہوا ہے مستقبل میں یہ نظام کس طرح بحال ہو سکے گا اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، گو اس وقت موجودہ لاک ڈاون میں کوشش کی جارہی ہے کہ اسکولوں اور کالجوں کو بند نہ کیا جائے لیکن خطرہ ہے کہ اسکول کہیں کورونا کا نشانہ نہ بن جائیں اور موجودہ حکمت عملی کامیاب ثابت نہ ہو سکے۔
کورونا کی وجہ سے جمہوری نظام کا مستقبل بھی غیر یقینی نظر آتا ہے۔ اس وقت پارلیمانی نظام بڑی حد تک اپاہج ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ پارلیمنٹ کی کاروائی دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ بس خانہ پُری ہورہی ہے۔ ایک عرصہ سے ملک کے کسی اہم مسئلہ پر کوئی بحث نہیں ہوئی، پچھلے ہفتہ صرف لاک ڈاون کی منظوری کے بارے میں بحث ہوئی جسے دیکھ کر لوگوں کو سخت مایوسی ہوئی۔ عام طور پر مئی میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات ہوتے ہیں اور لوگوں کو اپنے اپنے علاقوں میں نمائندوں کے انتخاب کا موقع ملتا ہے لیکن اس بار یہ انتخابات کورونا کا نشانہ بنے ہیں۔
بعض حلقوں کی طرف سے یہ کہا جارہا ہے کہ کورونا نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ دفاع پر بھاری رقومات خرچ کرنا بے معنی ہے کیوںکہ فوج کے ہتھیار اس وبا سے ہلاک ہونے والے 47ہزار سے زیادہ افراد کو نہ بچا سکے۔ کیوں نہ اسلحہ پر خرچ ہونے والی بھاری رقوم عوام کی فلاح اور بہبود پر خرچ کی جائیں۔ لوگوں کو احساس ہے کہ برطانیہ دنیا میں اپنی بڑائی ثابت کرنے کے لیے اپنی افواج اور جدید ترین اسلحہ کو ترک نہیں کرے گا لیکن بلا شبہ ملک کے مستقبل پر غور کرتے وقت اس اہم مسئلہ کو سامنے رکھنا ہوگا اور اس اہم تبدیلی کو بھی مدِ نظر رکھنا ہوگا جو کورونا وبا کے دوران عوام کو خوف زدہ کرنے کا عنصر سیاست میں سرایت کر گیا ہے۔
پچھلے دنوں لاک ڈاون نافذ کرنے کے لیے وزیر اعظم بورس جانسن نے عوام کو خوف زدہ کرنے کی حکمت عملی اختیار کی تھی اور عوام کو خبر دار کیا تھا کہ اگر لاک ڈاون نافذ نہیں کیا گیا تو کئی ہزار افراد کورونا سے متاثر ہوں گے اور اس کے نتیجے میں نیشنل ہیلتھ کے اسپتالوں میں مریضوں کے لیے جگہ نہیں رہے گی اور خطرہ ہے کہ ہزاروں افراد کی جان چلی جائے۔ ممکن ہے کہ اسی خوف کی بنیاد پر برطانیہ کا مستقبل وضع کیا جائے۔
اس بات پر ہر وہ شخص اتفاق کرتا ہے جو کورونا کے اس دور سے گزر رہا ہے کہ یہ غیر معمولی ہنگامی دور ہے۔ لیکن اس دور کے بعد جو صورت حال سامنے آئے گی اس پر اتفاق نظر نہیں آتا۔ بہت سے لوگوں کی نظروں میں موجودہ صورت حال دوسری عالم گیر جنگ ایسی ہے لیکن جنگ کے زمانے میں کوئی لاک ڈاون نہیں تھا، اس لیے مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ویسے بھی اس وقت مستقبل کے بارے میں کچھہ کہنا ممکن نہیں کیوں کہ کورونا کا خطرہ برابر منڈلا رہا ہے اور کورونا ابھی اپنی انتہا کو نہیں پہنچا جس کے بعد اس کا خاتمہ شروع ہو سکے۔ بہر حال برطانیہ اس وقت ایک ان جانے مستقبل سے دوچار ہے۔