قبلہ سید سعود ساحر 82 برس کی عمر میں انتقال کر گئے، قیام پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان پہنچے، تحریک پاکستان کا ہنگامہ خیز دور بہت قریب سے دیکھا، بطور شہری وہ مسلم لیگ کے ہامی تھے۔ 1946 کے انتخابات میں والدہ ووٹ ڈالنے گئیں تو ان کے ہمراہ گئے کچھ عرصہ تک بائیں بازو کے کیمپ میں بھی رہے مگر تبدیلی آئی تو مولانا مودودی ان کے مرشد ٹھیرے۔ ہمیشہ اس بات پر انہیں فخر رہا کہ ان کے پاس مولانا کے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا تعریفی خط موجود ہے، وہ دل وجان سے مولانا سید مودودی سے عقیدت رکھتے تھے اور ان کے افکار سے متاثر تھے، وہ اپنی رائے پر قائم رہنے والے شخص تھے۔ عملی زندگی کا آغاز ایک عام آدمی کی طرح کیا، بطور روزگار صحافت ان کی پہلی چوائس نہیں تھی۔ 22 فروری 1958میں صحافت کے دشت میں قدم رکھا پھر صحافت کی پہچان بن گئے اور ریاست کی جانب سے صدر پاکستان نے انہیں سول ایوارڈ، صدارتی تمغہ حسن کارکردگی عطاء کیا، یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل سے کوئی چار روز قبل راولپنڈی پہنچے، صحافت جب اختیار کی تو آٹھ ماہ بعد ملک میں مارشل لا نافذ ہوا۔ یوں انہیں ملکی تاریخ کے اہم ترین واقعات قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
یہ وہ دور تھا جب جنرل ایوب خان کا مارشل لا نافذ تھا، ملک میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں تھی، اخبارات پر سخت پابندیاں عائد تھیں، پرانے سیاست دان ایبڈو کے قانون کے تحت سیاست کے کوچے سے باہر کر دیے گئے تھے۔ عام جلسوں اور جلوسوں کی ممانعت تھی، سیاسی امور پر کھلم کھلا تو کجا، لگی لپٹی رکھ کر بھی بات نہیں کی جا سکتی تھی، اہل ِ قلم بھی خوف و دہشت کی اس فضا سے بُری طرح سہمے ہوئے تھے، ایسے میں ایک نووارد اخبار نویس کے لیے کام کرنا کس قدر دشوار ہوگا‘ مگر اللہ نے ہنر دے رکھا تھا لہٰذا انہوں نے کام کرکے دکھایا وہ واقعی ایک کہکشاں تھی جو صحافت کے آسمان پر نظر آتی تھی انہوں نے جب صحافت کے میدان میں قدم رکھا تو اس وقت ملک میں ایوب خان‘ مولانا مودودی‘ نواب زادہ نصراللہ خان‘ مولانا مفتی محمود‘ مولانا بھاشانی‘ مجیب الرحمن‘ بھٹو‘ ولی خان‘ چودھری ظہور الٰہی‘ اصغر خان‘ پیر پگارہ‘ ملک قاسم‘ خواجہ خیر الدین‘ خواجہ رفیق‘ نسیم ولی خان‘ سردار شیر باز خان مزاری‘ پروفیسر غفور احمد‘ میاں طفیل محمد‘ مولانا فتح محمد‘ ڈاکٹر نذیر شہید جیسے نام سیاست میں تھے۔ آزاد کشمیر میں سردار عبد القیوم‘ سردار ابراہیم خان‘ فتح محمد کریلوی‘ راجا حیدر علی‘ نور حسین‘ پیر علی جان اور بعد میں نواز شریف‘ بے نظیر بھٹو‘ حتیٰ کہ عمران خان آئے‘ ان سب سے سعود ساحر کی ذاتی شناسائی تھی۔ اعجاز الحق سے محبت کرتے تھے۔ صحافت میں مجید نظامی، عنایت اللہ، ہدایت اختر، صلاح الدین، ابراہیم جلیس، نیاز مدنی، آغا شورش کاشمیری، محمود مدنی، منو بھائی، عبد الکریم عابد، مجیب الرحمن شامی، الطاف حسن قریشی، عبد القادر حسن، ارشاد حقانی، ضیاء الاسلام انصاری، شبیر حسین شاہ، عبدالقیوم، محمد خان نقش بندی، نثار عثمانی، اطہر ہاشمی، نصیر سلیمی، مقصود یوسفی، ادریس بختیار، فرخ سعید خواجہ، سعید آسی، مظفر اعجاز سمیت دیگر بے شمار بڑے نام ہیں۔ انہوں نے بھٹو دور کی صحافت بھی دیکھی اور یہ دور بھگتا بھی۔ تعمیر سے ہوتے ہوئے روزنامہ جسارت پہنچے پھر تکبیر سے وابستہ ہوئے لیکن ان کے دل میں جسارت سے محبت محو نہیں ہوئی، ابھی انتقال سے چند دن قبل مجھے گھر طلب کیا اور کہا کہ جسارت کے شمارے بھی لیتے آنا ان کی خدمت میں حاضر ہوا انہیں حالیہ دو ہفتوں کے جسارت اور فرائیڈے اسپیشل پیش کیے ایک ایک کرکے دیکھتے رہے سیاست پر بات چیت کی، یونین پر گفتگو کی اور ایک نصیحت بلکہ ہدایت کی یہ نصیحت اور ہدایت ان شاء اللہ پی ایف یو جے (دستور) کی کسی مجلس میں دوستوں کے سامنے رکھوں گا۔
ادریس بختیار مرحوم انہیں شاہ جی کہا کرتے تھے باقی دوست شاہ صاحب یا سعود ساحر صاحب کہتے۔ سید سعود ساحر اس قافلہ سخت جان کے سپاہی تھے انہوں نے سیاست جتنے بڑے نام دیکھے آج کے دور میں انہیں ان جیسا کوئی نہیں ملتا تھا، آج کے سیاست دان تو ان کی نظر میں ننھے میاں تھے۔ سعود ساحر کسی یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ نہیں تھے ان کی تعلیم واجبی سی تھی مگر خود ڈگری تھے اور اتھارٹی تھے۔ انہوں نے ان بڑے ناموں کی موجودگی میں اپنا نام کمایا۔ یہی ان کا امتیاز تھا جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا تھا، وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ جسے تین کام نہیں آتے اسے دوکام نہیں کرنے چاہییں یعنی جسے تاریخ، ادب اور جغرافیہ پر عبور نہیں اسے دو کام سیاست اور صحافت نہیں کرنی چاہیے، اکثر کہا کرتے تھے کہ آج کا صحافی کتاب نہیں پڑھتا، شاہ صاحب تو کتاب کی بات کرتے تھے سچ یہ ہے کہ آج کا صحافی اپنا اخبار بھی نہیں پڑھتا، سعود ساحر کتاب خریدتے تھے۔ اپنا اخبار بھی اسٹال سے خریدتے تھے، جو کتاب پسند آتی اسے خرید لیتے، کسی کے پاس اچھی کتاب دیکھتے تو بس اس سے چھین ہی لیتے، شاہ صاحب کے کریڈٹ میں بڑی خبریں ہیں۔ صحافتی زندگی میں دلائی کیمپ کا کھوج لگایا، دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس کی کوریج کی۔ بنگلا دیش نا منظور تحریک دیکھی اور رپورٹ کی۔ پاکستان قومی اتحاد کی سیاسی تحریک دیکھی اس پر بہت کچھ لکھا، ضیاء الحق کو نجات دہندہ کہتے تھے۔
بائیں بازو کی محفل میں جب بھی سیاسی بحث چھڑ جاتی تو ہمیشہ زور دے کر کہتے کہ ضیاء الحق شہید بھٹو کی پھانسی کا واقعہ دیکھا تو نہیں البتہ بھٹو اور جیل حکام کی گفتگو براہ راست سنی، ان کے بغیر ملکی صحافت نہ مکمل رہے گی وہ صحافتی ٹریڈ پالیٹکس کے بادشاہ گر تھے۔ رشید صدیقی اور برنا گروپ سے پی ایف یو جے دستور تک کا سفر بھی دیکھا، راولپنڈی پریس کلب کے صدر منتخب ہوئے، پی ایف یو جے کے صدر بنے، جاوید ہاشمی نے کہا تھا کہ آصف زرداری کو سمجھنے کے لیے سیاست میں پی ایچ ڈی ہونا ضروری ہے۔ صحافت کو سمجھنے کے لیے سعود ساحر پر پی ایچ ڈی ہونا ضروری ہے۔ خبر ان کے دربار پر ہاتھ باندھے کھڑی ہوتی تھی۔ گفتگو کے وہ بادشاہ تھے، کالم لکھتے ہوئے زبان کی صحت، مروج الفاظ کے تلفظ اور ہجوں پر بھرپور توجہ دیتے تھے آج کے دور میں اخبارات و رسائل کا تو ذکر ہی کیا‘ معتبر نام کی شہرت کے حامل اخبارات میں بھی پروف کی اغلاط عام ہیں۔ شاید نئی نسل کو مشکل ہی سے اس دعوے پر یقین آئے گا کہ ماضی کے اخبارات اور صحافی کے لیے معیار کیا تھا، صحافت کا شعبہ کوئی کھیل نہیں، بلکہ یہ ایک حساس میدان ہے اب یہ تنقید اور بے جا القابات کی مشینری سمجھ لیا گیا ہے کی کوئی کل سیدھی نظر نہیں آتی اس وقت صحافت نے بس تنقید کا لٹھ اٹھایا ہوا ہے۔ میڈیا دو دھاری تلوار ہے اسے آنکھیں بند کر کے چلانا اپنا دامن زخمی کرنے کے مترادف ہے۔
شاہ صاحب بہت دلیر اور نڈر تھے اب کوئی سعود ساحر نہیں رہا ان کے ساتھ نیاز مندی پر فخر رہے گا۔ وہ من موجی شخصیت تھے۔ دوستوں میں رہ خوش ہوتے، جس محفل میں ہوتے پھر کسی کو بولنے نہیں دیتے تھے ان کے ہر فیصلے اچانک ہوتے تھے بیٹھے بیٹھے چل پڑے اور چلتے چلتے رک جاتے اور گھنٹوں رکے رہتے۔ ہمیشہ خوش رہتے اور کھبی روٹھ جاتے، انہیں منانے میں ایک مزہ تھا۔ سگریٹ پیش کرنے پر خوش ہوجاتے ان کے تمام دوست انہیں سگریٹ ترک کردینے کا مشورہ دیتے رہے، وہ دوستوں کو بہت یاد رکھتے تھے۔ عامر الیاس رانا اور ان کی اہلیہ محترمہ نے عمرہ کے سفر میں شاہ صاحب اور آنٹی کی بہت خدمت کی۔ آخر وقت تک اس کا ذکر محبت سے کرتے رہے، میلوڈی مارکیٹ، موتمر عالم اسلامی اور پارلیمنٹ ہائوس کی مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنا ان کا معمول تھا مگر ایک سال وہ راولپنڈی صدر میں قاری سعید صاحب کی مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے لگے، نماز کے بعد اکبر فرنیچر پر جاتے کچھ دیر گپ شپ کرتے، ریلوے روڈ اور کرتار پورہ کے اپنے پرانے گھر کو دیکھنے جانا بھی ان کا معمول تھا۔ کئی بار انہوں نے کرتار پورہ میں اپنے گھر کی گلی کی مسجد میں نماز ادا کی ان کی محفل میں بیٹھنا ہمیشہ یاد رہے گا۔
(جاری ہے)
پارلیمنٹ ہائوس ہو یا ایوان صدر، ایوان وزیر اعظم ہو یا چیئرمین سینیٹ کا آفس انہوں نے ہر جگہ اپنی مرضی دکھائی ایک بار چیئرمین سینیٹ کی عدم موجودگی میں ان کے آفس میں ان کی کرسی پر بیٹھ کر گرین ٹیلی فون سے انہیں ہی فون ملادیا اور کہا کہ آپ کے آفس سے بات کر رہا ہوں وہ چیئرمین سینیٹ حیران پریشان۔ عدالتی نوٹس ملا تو ہرکارے سے کہا جس نے نوٹس بھیجا ہے اُسے ہی جاکر دے دو، ایسے ہزاروں واقعات ہیں ان کے ساتھ کی گئی راز کی بے شمار باتیں اور بے شمار یادیں ہیں۔ ایک بار ایسا ہوا کہ وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ بہاول پور گئے‘ رات گئے واپسی ہوئی، لمبے سفر سے تھکے ہوئے مگر جب گھر کی دہلیز پر پہنچے تو تھکاوٹ کا اثر چھپا کر چہرے پر مسکراہٹ لائے تو گھر والوں نے کہا آپ تو بالکل فریش لگ رہے ہیں۔ یہ واقعہ اگلے دن آکر سنایا اور کہا کہ اگر میں تھکاوٹ کا تاثر لیے گھر جاتا تو گھر والے پریشان ہوجاتے انہیں پریشان ہونے بچانے کے لیے خود پر فریش ہونے کی کیفیت طاری کی اپنے پوتوں، نواسوں سے بہت محبت کرتے تھے، گھر جاتے تو زین، بلال، زینب اور آمنہ کے لیے ضرور چاکلیٹ‘ کھلونے یا کچھ اور ضرور لے جاتے۔ شاہ صاحب ایک بار کامونکی گئے ایک دینی جماعت کے اجتماع کی تقریب کی کوریج کے لیے وہاں انہیں سگریٹ پینے سے منع کیا گیا کہنے لگے ’’میں آپ کی تقریب کی کوریج کے لیے آیا آپ کے فتوے کی اطاعت کے لیے نہیں آیا اسی تقریب میں ایک اشاعتی ادارے کے مالک بھی ایک سیشن کے لیے مہمان خصوصی تھے، جب وہ خطاب کے لیے کھڑے ہوئے تو شاہ صاحب نے انہیں خطاب نہیں کرنے دیا اور کہا کہ پہلے کارکنوں کی تنخواہیں دو پھر یہاں خطاب کرنا۔ سیکڑوں ایسی باتیں ہیں۔ شاہ صاحب سے بڑا ہی راز و نیاز رہا مگر ایک راز انہوں نے نہیں بتایا کہ عمر کے آخری حصے میں صحافتی خدمات کے معاوضے کے معاملے میں خاموش کیوں رہے؟ اب وہ اللہ کے حضور پیش ہوچکے ہیں اللہ غفور اور رحیم ہے، اللہ سے ان کی مغفرت کی دعاء ہے بے شمار باتیں ہیں جن کا ذکر کیا جاسکتا، بس یہی ہے کہ وہ سوگئے اور ہم سب کی محفلیں بھی اداس کرگئے، اب کسی محفل میں سعود ساحر نہیں ملیں گے۔
سرہانے میر کے کوئی نہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے