دلوں کا راجا: راجا رحمت خان

318

راجا رحمت خان صاحب سے ہمارا تعارف کس طرح ہوا یہ ایک دلچسپ کہانی ہے۔ یہ سن 74 کے لگ بھگ کی بات ہے کہ جب ہمیں کسی ایسی شخصیت کی تلاش ہوئی جو تھانہ کچہری اور اس طرح کے معاملات میں ہمارے لیے مددگار ہو سکے۔ ہماری بہن کی ایک سہیلی کے شوہر فتح محمد جو لانڈھی 36 بی میں رہائش پزیر تھے۔ وہ راجا صاحب کے دوست تھے۔ انہوں نے ہمیں راجا صاحب سے متعارف کرایا۔ وہ ان دنوں یوسف پلازہ کے سامنے فیڈرل بی ایریا میں رہائش پزیر تھے۔ راجا صاحب نے ہماری ایسے مدد کی جیسے کوئی اپنے سگے بھائی کی مدد کرتا ہے۔
راجا صاحب کے والد قیام پاکستان سے قبل ہی کراچی کینٹ منتقل ہوچکے تھے۔ ان کا تعلق جہلم سے تھا انہوں نے اپنی روٹی روزی کے لیے ایک سائیکل کی دکان کھولی جہاں سائیکلوں کی خریدو فروخت ہوتی اور کرائے پر بھی دی جاتی تھیں۔ ساتھ ہی ان کا کوئلے کا گودام بھی تھا۔ مگر راجا صاحب نے کراچی کے سینما گھروں میں کینٹین چلانے کا کاروبار کیا۔ ساتھ ہی یوسف پلازہ کے پاس سپر ہائی وے پر پٹرول پمپ بھی قائم کرلیا جو پاکستان کا سب سے زیادہ پٹرول فروخت کرنے والا پمپ تھا۔ اپنی محنت اور ایمانداری سے انہوں نے اپنے کاروبار کو بڑھایا اس سلسلے میں انہوں نے صلۂ رحمی سے کام لیتے ہوئے اپنے قریبی رشتہ داروں کو جہلم سے بلا کر اپنے کاروبار میں شریک کرنا شروع کر دیا اور ان کے کاروبار میں وسعت ہوتی چلی گئی۔ چونکہ فتح محمد صاحب کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا اس لیے آپ جماعت اسلامی سے قریب ہوتے چلے گئے۔ جب ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں کا نظام متعارف کرایا تو اس نظام کے تحت راجا صاحب کو بھی انتخابات میں کھڑا کیا گیا۔ راجا صاحب نے دیکھا کہ مخالف امیدوار ووٹوں کی خرید و فروخت کے لیے نوٹوں کا بھرپور استعمال کر رہا ہے۔ انہوں نے جماعت کے حلقوں سے اس کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ بھی اسی نہج پر کام کریں تو الیکشن جیت سکتے ہیں مگر جماعت نے ان کو ٹکا سا جواب دے دیا کہ بھلے آپ الیکشن ہار جائیں مگر یہ کام نہیں کرنا۔ اس بات نے راجا صاحب کو بہت متاثر کیا اور وہ جماعت اسلامی کے اور قریب ہو گئے اور آہستہ آہستہ ایک نظریاتی اور باکردار کارکن کی شکل اختیار کر لی۔ ہماری جب ان سے پہلی ملاقات ہوئی تو ان دنوں ہم بھی اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن تھے۔ خیر آمدم برسرِ مطلب
راجا صاحب نے ہمارے معاملات میں بہت مدد کی یوں ہمارے تعلقات ان کے ساتھ بڑھتے چلے گئے یہ تعلقات تقریباً نصف صدی پر محیط تھے۔ راجا صاحب کی چند خصوصیات ایسی تھیں کہ جنہوں نے انہیں لوگوں کے دلوں کا راجا بھی بنادیا تھا۔ ایک تو وہ بہت سخی تھے اور ہر ضرورت مند اور مظلوم کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے، سخاوت اور خدمت خلق کے حوالے سے ان میں کوئی تعصب نہ تھا، جانے انجانے سب کی مدد کرتے تھے۔ یہاں تک کہ جماعت اسلامی کے نظریاتی مخالفین بھی ان سے مدد کے طالب رہتے تھے اللہ نے ان کی سخاوت اور خدمت خلق اور صلہ رحمی کی وجہ سے ان کے کاروبار میں بھی بہت برکت اور وسعت دی۔ کراچی میں ان کا ایک ریسٹورینٹ یوسف پلازہ میں قائم تھا اس کا نام الطاہر ریسٹورینٹ تھا اس کا افتتاح پروفیسر غفور صاحب نے کیا تھا۔ الطاہر خوب چلا اچھی شہرت پائی شہر کے دور دور سے لوگ یہاں کڑھائی گوشت کھانے اور چائے پینے آتے تھے بڑے بڑے نامور لوگ تھے مثلاً مشہور شاعر سلیم احمد، ان کے بھائی شمیم احمد، عبیداللہ علیم، کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر جمیل خان، ہاکی کی دنیا کا بہت بڑا نام اصلاح الدین، حنیف خان۔، شاہد علی خان اولمپین وغیرہ۔
قیصر خان جو جامعہ کراچی میں رکن جمعیت تھے اور ہمارے اور راجا صاحب کے دیرینہ اور مشترکہ دوست بھی تھے آج کل جمعیت الفلاح کے صدر ہیں کا کہنا ہے کہ: ’’راجا صاحب کی مصروفیت اور ہوٹل چلانے والوں کی نااہلی نے اس نام ور ہوٹل کو بند کروا دیا‘‘۔ کچھ عرصہ یہ بند رہا۔ پھر دوستوں نے راجا صاحب کو ہوٹل دوبارہ کھولنے پر راضی کر لیا اس کا نام ’’کارگل ان‘‘ رکھا گیا۔ اس ہوٹل کا افتتاح قاضی حسین احمد نے کیا۔ راجا صاحب کے وہ دوست جماعت اسلامی کے مخلص کارکن تھے لیکن ہوٹل چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اس کا وہی حشر ہوا جو ہونا چاہیے تھا تھوڑا عرصے بعد یہ ہوٹل اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔
راجا صاحب کے ایک اور مداح وحید جعفری فرماتے ہیں ’’ہمارے محلے میں میلاد ہو تو راجا صاحب، مسجد کی تعمیر ہو تو راجا صاحب، کھیلوں کا مقابلہ ہو تو راجا صاحب، لڑکوں کو کھیلوں کا سامان چاہیے تو راجا صاحب، لائبریری کے لیے کتب چاہیے تو راجا صاحب، مدرسے میں کھانے کا انتظام تو راجا صاحب، پکنگ پر جانا ہے تو راجا صاحب، کسی غریب کی شادی ہے تو راجا صاحب، کسی کو پولیس رینجرز پکڑ کر لے گئی تو راجا صاحب، اللہ پاک مرحوم کی نیکیوں کو قبول فرمائے اور غلطیوں کو معاف فرمائے‘‘۔ آمین
راجا صاحب کراچی کے ہردل عزیز مئیر عبدالستار افغانی کے دور میں جماعت اسلامی کی طرف سے کونسلر بھی منتخب ہوئے۔ اور انہوں نے پورے فیڈرل بی ایریا میں ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے۔ جس میں گرلز اسکول۔ پارک۔ کھیلوں کے میدان۔ سڑکوں کی تعمیر وغیرہ شامل ہیں۔ بلدیاتی کاموں میں ان کا جواب نہ تھا۔ ان کی سادگی اور انکساری اور عوامی مزاج کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی گٹر خراب ہوجاتا تو خود جمعدار کو اپنی گاڑی میں لیکر جاتے۔ اس سے کام کراتے۔ اس کو کھانا کھلاتے اور گاڑی میں چھوڑ کر آتے۔ ان کے اس وی آئی پی سلوک کے بعد کون ایسا ہوگا جو ان کے کسی کام کا انکار کرے گا۔
ایک دفعہ ہم جمعیت کے سلسلے میں زر تعاون لینے ان کے پاس کیپری سینما کے آفس گئے اتفاق سے عین اس وقت مغرب کی اذان ہوگئی ہم اٹھ کر مسجد جانے کے لیے نکلنے لگے۔ راجا صاحب نے کہا۔ طلعت بھائی کہاں جا رہے ہیں۔ وہ ہمیشہ مجھے طلعت بھائی کہا کرتے تھے۔ میں نے کہا نماز کے لیے جا رہا ہوں۔ کہنے لگے ہم آپ کو یہی پڑھوا دیتے ہیں۔ ہم حیرت زدہ ہوئے کہ یہاں سینما گھر میں۔ کہنے لگے ہاں اور ہمیں لے کر سینما کے پروجیکٹر روم میں چلے گئے۔ ہم نے وہاں ایک عجیب و غریب منظر دیکھا شاید اس کی مثال ملنا مشکل ہو۔ ایک طرف مشینوں پر فلموں کی بڑی بڑی ریلیں چل رہی تھیں اور اس کی پشت پر چٹائی اور دری کی صورت میں صف بندی تھی۔ ہم نے وہاں پہلی مرتبہ باجماعت نماز ادا کی۔ راجا صاحب سے پوچھا کہ بھائی یہ کیا ماجرہ ہے۔ پتا چلا کہ راجا صاحب نے دعوت دین کا کام یہاں پر بھی جاری رکھا ہے۔ جس کے نتیجے میں اب سینما کے اکثر ملازمین باجماعت نماز ادا کرتے ہیں۔
ایک مرتبہ ہم بہت سخت بیمار پڑے اور بقائی اسپتال میں داخل ہوئے راجا صاحب ہماری عیادت کے لیے وہاں تشریف لائے۔ ہم بخار اور نیم بے ہوشی کے عالم میں تھے ہماری والدہ ہمارے سرہانے بیٹھی تھیں۔ بعد میں والدہ نے بتایا کے راجا صاحب نے جاتے جاتے چپکے سے ہمارے تکیے کے نیچے کچھ معقول رقم رکھ دی تھی جو اس زمانے کے اسپتال کے اخراجات کے لیے تھی۔ اکثر ہم ان سے ملنے ان کے یوسف پلازہ کے دفتر بھی جاتے تھے ہم نے ہمیشہ یہ دیکھا کہ راجا صاحب نے دوست دشمن اپنے پرائے کی تمیز کے بغیر لوگوں کی مدد کی، کبھی ماتھے پر شکن نہیں آئی چاہے کوئی آدھی رات کو بھی دستک دے۔ بہت ہی خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے چہرے پر ہمیشہ ایک دل موہ لینے والی مسکراہٹ رہتی تھی۔ غرض یہ کہ راجا صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ وہ ایک چلتی پھرتی این جی او اور ایک متحرک اور مکمل الخدمت۔ واقعی اسم بامسمیٰ تھے یعنی دل کے راجا بھی تھے اور لوگوں کے لیے باعث رحمت بھی۔ یعنی راجا رحمت۔
اکثر راجا صاحب ہمارے گھر عزیزآباد بھی تشریف لاتے تھے اور ہماری والدہ سے بہت محبت اور احترام سے پیش آتے تھے اور ان سے دعائیں لیتے تھے اور انہیں ماں جی کہتے تھے۔ ہمیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ راجا صاحب ہماری شادی میں شریک ہوئے اور ہمارے نکاح کے گواہ تھے جو ہمارے لیے باعث عز و شرف ہے۔ راجا صاحب نے اپنی تمام دیگر ذمے داریوں اور کاروبار کے علاوہ دعوت کے کام کو ہمیشہ جاری و ساری رکھا۔ ان کے حسن اخلاق اور عوامی انداز کی وجہ سے دشمن بھی دوست بن جاتے تھے۔ راجا صاحب کے لیے 24 گھنٹے بھی کم تھے اسی محنت و مشقت اور بے آرامی اور بھاگ دوڑ کی انتہائی مصروف زندگی کی وجہ سے وہ بہت ساری بیماریوں میں بھی مبتلا ہوگئے تھے سب سے ظالم بیماری شوگر کی تھی جو انہیں اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ گئی بالآخر وہ سخت بیمار پڑے اور بستر سے لگ گئے۔ ملاقاتوں سے بھی گریز پر مجبور ہوگئے۔ ہمیں خبر ملی تو ہم ان کی عیادت کے لیے گئے چوکیدار نے گیٹ پر ہی ہمیں روک دیا۔ ہم نے کہا کہ آپ راجا صاحب کو بتائیں کہ طلعت بھائی ملنے آئے ہیں۔
ہمارا نام سنتے ہی راجا صاحب نے ہمیں اندر بلا لیا ہم ان کی چارپائی کے برابر میں کرسی رکھ کر بیٹھ گئے۔ راجا صاحب بہت محبت سے کہنے لگے طلعت بھائی آپ ہمیں نہیں بھولے۔ ہم نے کہا ہم آپ کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ آپ کے حسن سلوک اور محبت میں تو ایک زمانہ گرفتار ہے۔ راجا صاحب انتہائی کمزور تھے، ان سے بات کرنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ ہم نے بھی ان کی تکلیف کو محسوس کر لیا ہم دونوں ایک دوسرے کو محبت بھری نظروں سے کافی دیر خاموشی سے دیکھتے رہے اور دل ہی دل میں دعا کرتے رہے۔ یہ ہماری ان سے آخری ملاقات تھی۔ چند دنوں بعد ہی ان کے انتقال کی خبر مل گئی ہم ان کے گھر پر ہونے والی تعزیتی مجلس میں بھی شریک ہوئے۔ ان کی تدفین آبائی قبرستان جہلم میں ہوئی۔ راجا صاحب حسن سلوک خدمت خلق اور سخاوت میں بہت اونچا مقام رکھتے تھے۔ جس کی ہم صرف تمنا ہی کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین ثمہ آمین۔