بہت سے تجزیہ کار، فرانس کی موجودہ بحرانی صورتحال کے محرکات کو صرف مذہبی شدت پسندی میں تلاش کر رہے ہیں حالانکہ یہ اس بحران کا صرف ایک محرک ہے، واحد نہیں۔ فرانس حکومت کےعہدیداروں اور سفید فام نسلی انتہا پسند جماعتوں کے رہنماؤں کے بیانات اور مقامی میڈیا کا پروپیگنڈا بھی صرف اسلاموفوبیا کے فروغ ہی سے متعلق ہےلیکن مغرب کے کچھ غیر جانبدار تجزیہ کار دیگر محرکات پر بھی گفتگو کر رہے ہیں، جن میں سب سے اہم فرانسیسی ریاست اور قوم کا سخت گیر سیکولر مزاج ہے، جو چرچ اور کرائون کے خلاف بغاوت کے نتیجے کےطور پرتشکیل پایا۔ اس مزاج میں موجود اشتعال انگیزی کے عنصر کو مزید تقویت دینے کے لیے مذہبی عقائد و علامات کی توہین اور مذہبی اخلاقیات کی خلاف ورزی کو قانونی تحفظ دیا گیا ہے۔ ہر قسم کے تقدس و احترم کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جنسی و فحش حرکات پر مبنی کارٹون بنانے کو قومی مشغلے کے طور پر اپنا لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ فرانس کے طویل ظالمانہ کالونیل ازم کی زہریلی روایت ہے، جس میں مسلم اکثریتی علاقوں پر قبضے کے دوران مسلمانوں کے مال اور جائدادوں کو لوٹا گیا اوران پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے اورانہیں غلام بنا کر فرانس بھی لایا گیا۔ اس ظالمانہ روایت میں ایک ہزار سالہ صلیبی جنگوں کا بغض بھی شامل ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آیندہ انتخابات جیتنے کے لیے صدر عمانویل ماکروں کی اولیں ترجیح، دائیں بازو کے انتہاپسندانہ دلائل اور نسل پرستانہ نفرت انگیزحکمت عملی ہے۔ پولیٹیکل، اکنامک اینڈ سوشل ریسرچ فائونڈیشن انقرہ، کے Enes bayrakli کا کہنا ہے کہ ’’عمانویل ماکروں، اسلام اور مسلمانوں کو قربانی پر چڑھا کر اپنی ملکی اور خارجہ پالیسی کی پریشانیوں پر قابوپانا چاہتے ہیں‘‘ ۔ اسی طرح آسٹریا کی سالز برگ یونیورسٹی کے ایک پولیٹکل سائنٹسٹ فرید حفیظ کا کہنا ہے کہ ’’ماکروں کے اقدامات قانون کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا مظہر ہیں اور وہ اصل مسلم شناخت کو ختم کرکے ایک من پسند مسلم شناخت تشکیل کرنا چاہتا ہےجو اس کے لیے سیاسی طور پر بے ضرر ہو‘‘۔
حالیہ بحرانی صورتحال کا ایک اہم محرک فرانس کی موجودہ گرتی ہوئی معیشت بھی ہے،جس میں مہنگائی اور ٹیکسوں سے پریشان غریب عوام ایک تحریک کی شکل میں منظم ہو کر مسلسل احتجاج کر رہے ہیں اور دوسری طرف سفید فام نسلی انتہاپسندوں کی طرف سے صدر ماکروں پر شدید دبائو ہے کہ ایشیائی باشندوں کی بڑھتی ہوئی آبادی ہر شعبہ زندگی میں ان کے لیے چیلنج پیدا کرتی جا رہی ہے۔ اس دبائو کے نتیجے میں صدر ماکروں اور ان کی کابینہ مذہبی منافرت کو ہوا دیتے ہوئے اپنی ناکامیوں کا نزلہ اپنے ملک کی سب سے کمزور مسلم اقلیت پر گرانے کی کوشش کررہی ہے اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی طرح اپنی تمام ناکامیوں کواسلاموفوبیا کے پیچھے چھپانے میں مصروف ہے۔
فرانس، جرمنی کے بعد یورپ کی دوسری بڑی معیشت اور آبادی کے لحاظ سے بھی دوسرا بڑا ملک ہے لیکن 2008ء کے بعد سے معاشی بحران کا شکار ہے۔ فرانس میں پھیلی ہوئی بے روزگاری یورپ کے دیگر ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔ فرانس کی درآمدات اس کی برآمدات سے بڑھ چکی ہیں اور15 ارب یورو سے زائد کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ ہے اور اقتصادی ترقی بھی ایک فیصد پر کھڑی ہے۔ ٹیکسوں کے بھرمار نے ملک کے نچلے طبقات کی قوت خرید کو اس حد تک کم کر دیا ہے کہ ان کے لیے زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ ماکروں کو اپنی صدارت کے اوائل ہی سے ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، سستی رہایش کے فقدان، بے روزگاری، پولیس تشدد اور عوامی احتجاجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا ماکروں کے لیے جزوی راحت کا سامان لائی کیونکہ اس کی آڑ میں غیر معمولی قوانین، جبر اور مکمل لاک ڈائون متعارف کرایا گیا اورشدید کنٹرول کے خلاف مزاحمت میں دیکھی گئی۔ اس لاک ڈائون میں ماکروں کی ناکامیوں پر تو پردہ پڑا رہا لیکن فلاح و بہبود اور معاشرتی خدمات کے کام کے فقدان، ریاستی فنڈز کی عدم تقسیم، بے روزگاری اورغربت میں مزید اضافہ ہوا اور اس نے عوامی غصے شکل اختیار کر لی۔ نتیجتاً صدر ماکروں کی مقبولیت اس وقت 26 فیصد سے بھی کم ہے اور 2 سال سے بے روزگاری اور ٹیکسوں کے شدید بوجھ سے تنگ آئے ہوئے عوام زرد جیکٹ پہن کر مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔
پیلی واسکٹ تحریک Yellow Vests Movement فرانس کے اندر ایک احتجاجی تحریک ہے، جس میں نچلا اور پسا ہوا طبقہ خصوصاً شامل ہے۔ یہ تحریک معاشی انصاف کے حصول کے لیے 2018ء میں شروع ہوئی۔ مئی 2018ء میں انہوں نے ایک آن لائن پٹیشن کے بعد دستخطی مہم چلائی، جس میں 10 لاکھ افراد نے اس تحریک کی حمایت کی۔ 17 نومبر 2018ء کو اس تحریک نے بڑے پیمانے پر مظاہرے شرع کیے۔ اس تحریک کے شروع ہونے کے محرکات میں فرانس میں اشیائے ضرورت کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، عوام کی پہنچ سے بالاتر معیار زندگی اور ٹیکس اصلاحات کے نام پر محنت کش اور درمیانے طبقے پر ٹیکسوں کا غیر متناسب بوجھ شامل ہیں۔ 29 نومبر 2018ء کو 42 مطالبات کی ایک فہرست کو عوامی طو پر منظر عام پر لایا گیا، جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی اور پھر وہ اس تحریک کے بنیادی مطالبات کا ایجنڈا بن گئی۔ اس تحریک کی مقبولیت کے پیش نظر اب دنیا بھر میں اور خاص طور پر تمام یورپی ممالک میں زرد جیکٹ کو احتجاج کی پہچان کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ مارچ 2020ء کے بعد اس تحریک نے کورونا لاک ڈائون کی وجہ سے اپنے احتجاج روک لیے تھے لیکن اب ستمبر 2020ء سے دوبارہ فرانس کے تمام شہروں میں اس تحریک کے احتجاج شروع ہو گئے ہیں۔ 12 ستمبر کو ایک احتجاج کے دوران اس تحریک کے ڈھائی سو سے زائد افراد کو پولیس نے حراست میں لیا۔ اکتوبر میں اس تحریک کے لوگوں نے پیرس میں ایک پولیس اسٹیشن کے باہراحتجاج کے طور پر آتش بازی بھی کی۔
عوامی احتجاج خواہ وہ زرد جیکٹ تحریک کی طرف سے ہوں یا پریشان حال مسلمانوں کی طرف سے، ان کے جواب میں جب فرانسیسی صدر اعلان کرتا ہے کہ وہ ’’جمہوریہ اور اس کی اقدار کا دفاع کرے گا اور مساوات اور آزادی کے وعدوں کا احترام کرے گا‘‘ تو وہ صرف سفید فام اشرافیہ کو یقین دلا رہا ہوتا ہے۔ اس کے اس ایجنڈے اور پالیسی میں غریب عوام اور 60، 70 لاکھ مسلمان شہری شامل نہیں ہوتے۔ ان کی زندگیوں پر آج تک فرانس کی کسی پالیسی کا کوئی مثبت اثر نہیں پڑا۔ ان کے محلے اسی طرح پسماندہ ہیں، جیسے پہلے تھے، ان پر اعلیٰ تعلیم اور ملازمت کے دروازے اسی طرح بند ہیں جیسے پہلے تھے۔ ان پر ظلم اور جارحیت اسی طرح ہو رہا ہے جیسے پہلے ہو رہا تھابلکہ صدر ماکروں کے سیاسی ایجنڈے نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہی کیا ہے۔ یہ لوگ نہ فرانس کی شہریت کی خواہش لے کر یہاں آئے تھے اور نہ آتے وقت انہوں نے فرانس کو ویزے کے حصول کے لیے کوئی درخواست دی تھی۔ ان لوگوں کے آبائواجداد کو فرانس کی اشرافیہ ا س وقت غلام بنا کر یہاں زبردستی لائی تھی جب الجیریا پر فرانس کا قبضہ تھا۔ جنگ عظیم اول میں مارے جانے والے کثیر محنت کشوں کے بعد فرانس میں افرادی قوت کی کمی ہو گئی تھی اور فرانس کو اپنےصنعتی انفراسٹرکچر کی تشکیل کے لیے ایسے لوگ درکار تھے جو سارا دن کام کاج میں اپنا جسم جلائیں اور کھانے تک کا مطالبہ بھی نہ کریں۔
الجیریا کے لاکھوں مسلمان نوجوان مزدوروں کوفرانس کے جدید تمدن کا ایندھن بنانے کے لیے یہاں لا کر بسایا گیا۔ ان محنت کشوں نے فرانس میں ریل کی پٹڑیاں بچھائیں، سرنگوں میں کام کئے، انتہائی گرمی اور سردی میں سڑکیں ہموار کیں، مگر اسکے ساتھ تنہائی اور غربت میں شہروں کے مضافات میں خیموں میں زندگی بسر کی۔ آج بھی افریقی اور عرب نژاد فرانسیسی شہری غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں اور انہیں یہ حق حاصل نہیں کہ یہ فرانس کے دیگر شہریوں کی طرح اپنی مرضی کا لباس بھی پہن سکیں یا اپنی مرضی کا عقیدہ اپنا سکیں یا اپنی مرضی کی ثقافت اور رسوم و رواج کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ اب ان لوگوں کی کئی نسلیں یہاں پیدا ہو کر جوان ہو گئی ہیں اور انہیں سیاسی شعور آ چکا ہے اور وہ فرانس کےشہری ہونے کی حیثیت سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں تو فرانس کی اشرافیہ ان پر دہشت گردی کے الزام لگا کر انہیں اسلامی عسکریت پسندی سے نتھی کرتی ہے۔ اپنے ظلم، جبر، تشدد اور ناکامیوں کو اسلام کے خلاف بیان بازی، توہین رسالت اور گستاخانہ خاکوں کے پیچھے چھپاتی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ فرانس کی موجودہ ریاست اب اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ الجیریا نژاد مسلمانوں کی سیاسی طور پر باشعور اولادوں کو مفت کے مزدورں کے طور پر مزید استعمال نہیں کیا جا سکتا، اس لیے ان پر بھارت کی طرح الزامات لگا کر انہیں فرانس سے بے دخل کرنا چاہتی ہے۔ ان لوگوں کو بے وطن اور بے ریاست بنانے کے لیے کوئی بہانا درکار ہے اور موجودہ صورتحال میں اسلامی عسکریت پسندی اور اسلاموفوبیا اسکا بہترین بہانا ہے، جس کی آڑ میں ان لوگوں کو بے ریاست بھی کر دیا جائے گا اوراس شور شرابے میں فرانس کی سفید فام غریب آبادی کے احتجاج بھی کنٹرول ہو جائیں گےاور تمام معاشی ناکامیاں بھی چھپ جائیں گی۔ مسلمان شہریوں کو بے دخل کرنے کی باتوں کا اظہار صدر ماکروں تھوڑے ڈھکے چھپے الفاظ میں کر رہے ہیں لیکن وہاں کے سفید فام نسل پرست رہنما علی الاعلان اس کا اظہار کر رہے ہیں۔
فرانس میں ہائی اسکول کے ٹیچر سموئیل پیٹی کے قتل کے بعد نیشنل ریلی کی رہنما میرین لی پین نے کہا ہے کہ ’’اسلام ازم ہمارے ساتھ جنگ میں ہے اور ہمیں اسے طاقت کے زور پر اپنے ملک سے بے دخل کرنا ہوگا‘‘۔ اس کے بعد سے میڈیا میں قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ پہلے مرحلے میں 200 سے زیادہ مسلمانوں کو ملک بد ر کر دیا جائے گا جن کے بارے میں فرانس حکومت کا خیال ہے کہ وہ مختلف اسلامی تنظیموں میں زیادہ متحرک ہیں۔
فرانسیسی صدر عمانویل ماکروں اور بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی مسلم دشمن اور مسلم کش پالیسیوں میں بہت واضح مشابہت اورمطابقت دیکھی جا سکتی ہے۔ بھارت لاکھوں مسلمان شہریوں کو ان کی جائدادوں، املاک اور مال و متاع سے بے دخل کرکے بے وطن کر چکا ہے اور اُدھر ماکروں بھی اسی پالیسی پر عمل کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس لیے ان دونوں شائونسٹ لیڈروں میں تعاون کی پینگیں بڑھ رہی ہیں۔ مودی نے صدر ماکروں کا دفاع کرتے ہوئے اس پر مسلمانوں کی طرف سے ہونے والی تنقید اور معاشی بائیکاٹ کی مذمت کی ہے اوربھارت کے سیکرٹر ی خارجہ ہر ش وردھن شرنگلہ نے فرانس کے دورے کے دوران فرانس کی صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’دونوں ملکوں ( بھارت اور فرانس) کو بنیاد پرستی اور دہشت گردی کا سامنا ہے اور دونوں کے قومی تحفظات کو غیر روایتی اسلامی انتہا پسندی کے خطرات کا سامنا ہے اور مغرب کو چاہیے کہ ہمارے ساتھ مل کر اس اسلامی انتہاپسندی کے خلاف کام کرے۔ ہماری لڑائی اب صرف کسی خاص گروہ یا کمیونٹی کے خلاف نہیں بلکہ اس مذہبی نظریے کے خلاف ہے جو سیکولر جمہوریتوں کو چیلنج کر رہا ہے‘‘۔ بھارت جس مذہبی نظریے کو اپنے اور فرانس کے سیکولر جمہوری نظام کے لیے چیلنج بتاتے ہوئے فرانس سے مدد اور تعاون کی اپیل کر رہا ہے اس مذہبی نظریے کے ماننے والے 20 لاکھ افراد کو پہلے سے ہی اپنی شمال مشرقی ریاست آسام میں ’غیر قانونی تارکین وطن‘ قرار دے چکا ہے۔
آسام میں ’’شہریوں کے قومی رجسٹر‘‘ یا این آر سی کی تازہ فہرست جاری کی گئی ہے، جس میں آسام میں برسوں سے رہنے والے مسلمان شہریوں کو بھارتی شہری تسلیم نہیں کیا گیا۔ یہ غیر قانونی اور غیر ملکی قرار دیے جانے والے 20 لاکھ افراد عملی طور پر بے وطن ہو چکے ہیں اور اگر وہ اپیل کرنے کے بعد بھی اپنی شہریت ثابت نہ کر پائے تو انہیں ملک بدری، گرفتاریوں اور حراست کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ستمبر میں اپنے دورہ آسام کے دوران
یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ ’’بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ان در اندازوں کو ایک ایک کر کے اٹھائے گی اور انہیں خلیج بنگال میں پھینک دیا جائے گا ‘‘۔
شہریوں کے قومی رجسٹر کو اپ ڈیٹ کرنے کا سلسلہ وزیر اعظم مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے شروع کیا تھا۔ یہ فہرست 1951ء کے بعد سے جاری نہیں کی گئی تھی تاہم 2014ء میں بی جے پی کے ایک رکن کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ نے تازہ فہرست تیار کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ بی جے پی کا مقصد بھارت میں کئی دہائیوں سے مقیم آسامی مسلمانوں کو نشانہ بنانا تھا جنہیں بی جے پی، بنگلا دیشی تارکین وطن قرار دیتی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک سابقہ خاتون اہلکار اور بھارتی ماہر سماجیات انورادھا سین مکھرجی نے کئی جامعات اور تحقیقی اداروں کے ایک مشترکہ بلاگنگ پلیٹ فارم The Conversation پر لکھا ہے ’’اس بات کا قوی امکان ہے کہ آسام میں این آر سی کی تکمیل کا عمل بے وطنی کی حالت سے جڑے ایسے انتہائی تکلیف دہ مصائب کا سبب بنے گا، جو بہت عرصے تک جاری رہیں گے‘‘۔
بھارت کے اس انسانیت سوز عمل کے خلاف آسام میں فرانس کی طرح کے مظاہرے ہو رہے ہیں اور اب تک لاتعداد مظاہرین کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ مظاہرین کی ہلاکت سے بچنے کے لیے کی گئی مزاحمت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ان مظاہروں میں 50 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ قانون باہر سے آنے والی غیر مسلم اقلیتوں کو تو سہولت دیتا ہےلیکن یہ قانون خود بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر مبنی ہے، تاہم اس کے برعکس ریاست کے انتہا پسند ہندو وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا ہے کہ جن لوگوں نے احتجاج کے دوران سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا ہے ان سے ’’انتقام‘‘ لیا جائے گا اور ’’سرکاری املاک کے ہرجانے کے طور پر ان کی جائداد کی قرقی کی جائے گی‘‘۔ پولیس نے ان کے حکم پر عمل کیا ہے اور ’’مطلوب‘‘ افراد کی نشاندہی کے بعد، جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں، ان کے پوسٹر پورے کانپور میں چسپاں کروا دیے ہیں۔
مسلمانوں کو ملک سے بے دخل کرنے اور انہیں بے وطن و بے ریاست کرنے میں فرانس اور بھارت کے اس گٹھ جوڑ کو پوری دنیا سمجھ رہی ہے لیکن اس پر نہ صرف عالمی ضمیر غفلت کی نیند سویا ہوا ہے بلکہ اسلامی ریاستوں کے سربراہان کی اکثریت بھی خاموش ہے۔ صرف ترکی کے صدر اِردوان اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اس معاملے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اس پر آواز بلند کی ہے۔ صدر رجب طیب اِردوان نے کہا کہ ’’یورپی رہنماؤں کو یورپ میں نفرت کا پھیلاؤ روکنے کے لیے فرانسیسی صدر کی پالیسیوں کو روکنا چاہیے اور انہیں سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل جس طرح یہودیوں کے خلاف مہم چلائی جا رہی تھی آج ویسی ہی مہم مسلمانوں کے خلاف چلائی جا رہی ہے‘‘۔
وزیرِ اعظم عمران خان کو فرانسیسی صدر کی طرف سے مسلمانوں کو بے دخل اور بے وطن کرنے کے عزائم کا اندازہ ہو چکا ہے، اس لیے عمران خان نے فرانسیسی صدر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے موجودہ صورتحال کا ذمے دار ٹھہرایا ہے اور صدر ماکروں و وزیر اعظم نریندر مودی کے عزائم میں مشابہت تلاش کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’دنیا میں بھارت وہ ملک ہے جہاں ریاست کی معاونت سے اسلاموفوبیا کو بڑھاوا دیا جا رہاہے اس کی وجہ آر ایس ایس کے نظریات ہیں، جو بدقسمتی سے بھارت میں حکمران ہے۔ بھارت دنیا میں اسلامو فوبیا کو فروغ دے رہا ہے کیونکہ بھارت میں آر ایس ایس کا نظریہ غالب ہے جبکہ مودی کی حکومت کی جانب سے گاندھی اور نہرو کا نظریہ آر ایس ایس نظریے میں بدل دیا گیا۔ 2002ء میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور گجرات میں قتل عام نریندر مودی کی سرپرستی میں ہوا۔ آر ایس ایس نے 1992ء میں مسلمانوں کی تاریخی بابری مسجد کو شہید کیا جبکہ انتہا پسند نظریے کی تشکیل 1920ء کی دہائی میں کی گئی اور اس کے بانی اراکین نازی نظریات سے متاثر تھے۔ نازی یہودیوں کو نشانہ بناتے تھے اور آر ایس ایس مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ بھارت کو ہندو ریاست بنانے کے لیے مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے اور آسام میں 20 لاکھ مسلمان شہریت سے محروم کر دیئے گئے ہیں‘‘۔
وزیر اعظم عمران خان نے اس سلسلے میں تمام مسلم ریاستوں کے حکمرانوں کو خطوط بھی لکھے ہیں جس میں یقیناً اس بات کا ذکر کیا ہوگا کہ جس طرح بھارت آسام میں 20 لاکھ مسلمانوں کو بے وطن کر چکا ہے اور کشمیر میں ایک سال سے زائد عرصے سے کرفیو لگا کر معصوم عوام کا جینا حرام کیا ہوا ہے تاکہ وہ اپنا گھر بار چھوڑ کرچلیں جائیں۔ میانمر کی فوج نے سخت مظالم ڈھاتے ہوئے 5 لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو ملک بدر کرنے پر مجبور کر دیا ہے اور ان کا گھر بار، گاؤں، مویشی جانور اور کھیت تمام نذر آتش کر دیے گئے ہیں تاکہ وہ ملک میں واپس نہ آئیں۔ یہ لوگ 15 روز کا پیدل سفر کرکے بنگلا دیش پہنچے اور اب ایک ویران جزیرے پر بے آسرا پڑے ہیں۔ اسی طرح فرانس بھی 60 لاکھ مسلمانوں کو بے وطن کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ اگر مسلم حکمرانوں نے اس سے بھی کوئی سبق نہ سیکھا اورمسلم امہ کے اتحاد کی کوششیں نہ کیں توپوری دنیا کے مسلمانوں کا خون ارزاں ہو جائے گا۔