پاکستان بحریہ کا میزائل فائرنگ کا مظاہرہ

196

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حکم دیا ہے: ’’اور جہاں تک ہوسکے (فوج کی جمعیت کے) زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے (مقابلے کے) لیے مستعد رہو کہ اس سے خدا کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور ان کے سوا اور لوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ہیبت بیٹھی رہے گی‘‘۔ (سورہ الانفال: آیت 60) یہ آیات 1400 سے زائد عرصہ پہلے کی عسکری تیاریوں کا صرف استعاراتی بیان ہی نہیں ہیں بلکہ مزاحمت کے اصولوں کو بھی بیان کرتی ہیں۔ جدید دور کے ہتھیاروں کی ہلاکت میں اضافے اور عالمی سطح پر روایتی جنگوں کے خلاف تنفر، خاص طور پر یکساں طاقت کے حامل حریفوں کے باعث روایتی جنگ کے مواقع کم ہو گئے ہیں۔ اس کے برعکس، آج کی جنگیں بہت سی نئی صورتوں میں ڈھل گئی ہیں جن میں متحرک اور غیر متحرک ذرائع شامل ہیں، جنہیں عام طور پر ہائبرڈ وارفیئر کہا جاتا ہے۔ تاہم تمام ممالک کا مقصد زمینی، فضائی اور سمندری شعبوں میں موثر مزاحمت کے حصول کے ذریعے جنگ سے بچناہے۔ لہٰذا موجودہ زمانے میں مسلح افواج کی تنظیم نہ صرف جنگیں لڑنے اور جیتنے بلکہ جنگوں کی روک تھام اور مزاحمت کے لیے بھی ضروری ہے۔ تاریخی طور پر جیو پالیٹکس کا محور زمین رہی ہے اور اسی وجہ سے زیادہ تر جنگیں زمینی علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے لڑی گئیں۔ جیو اقتصادیات کے حق میں جغرافیائی حکمت عملی میں تبدیلی سے (میئر لائبرم) تمام اقوام عالم کے لیے سمندر کی دستیابی کے اصول کے تحت اپنے میری ٹائم مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے سمندری سلامتی کی اہمیت میں گرانقدر اضافہ ہوا ہے۔
برصغیر پر برطانوی حکومت کے اختتام کے بعد فوجی اثاثوں کو بھارت اور پاکستان کی مسلح افواج کے درمیان تقسیم کیا گیا تھا۔ یہ ایک غیر منصفانہ تقسیم تھی جس میں بھارت کو بھرپور فائدہ حاصل رہا۔ یہ غیر منصفانہ تقسیم 1947 میں انتہائی قلیل تعداد سے آغاز لینے والی پاکستان بحریہ کے معاملے میں اور بھی زیادہ نمایاں تھی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان بحریہ کے حجم اور صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے اور اس نے ایک اہم علاقائی سمندری قوت کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ اپنی پوری تاریخ میں پاک بحریہ نے ہتھیاروں کی تعداد اور گنتی میں کم ہونے باوجود عددی لحاظ سے کئی گنا بڑے دشمن کو ایک حد میں رہنے پر مجبور کیے رکھا۔ دوارکا میں ریڈار اسٹیشن کی تباہی اور 65 میں پوری ہندوستانی بحریہ کو بندرگاہ میں محصور کیے رکھنا، 1971 میں سب میرین کے ذریعے بھارتی بحری جہاز ککری کو سمندر برد کرنا (جنگ عظیم دوم کے بعد صرف پاک بحریہ اور رائل نیوی نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے)، 2016 اور 2019 (پلوامہ کے بعد) میں بھارتی آبدوزوں کا پتا لگانا اور مقابلہ کرنا، پاکستان بحریہ کی پیشہ ورانہ صلاحیت، عزم اور سب سے بڑھ کر مستقل آپریشنل تیاری کا عکاس ہے۔
28 اکتوبر کو پاک بحریہ نے شمالی بحیرہ عرب میں میزائل فائرنگ کا شاندار مظاہرہ کیا جس میں مختلف سطح آب اور فضائی پلیٹ فارمز سے میزائل داغے گئے۔ توسیع شدہ حدود میں اہداف کی کامیاب تباہی، دشمن کی جانب سے جارحیت کا جواب دینے کے لیے پاک بحریہ کے اہلکاروں کی مہارت اور اس کی مضبوط جنگی صلاحیتوں کی توثیق کرتی ہے۔ اگرچہ پاک بحریہ سطح سمندر اور زمینی حملے کی صلاحیتوں میں خود انحصاری کے حصول کی طرف آہستہ آہستہ آگے بڑھ چکی ہے، لیکن جہاز شکن میزائلوں کے ذریعہ اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنانا بھی قابل اعتماد رسد اور بحالی کے نظام کی حامل پاک بحریہ کے اہلکاروں کی مہارت کی نشاندہی کرتی ہے جو کئی دہائیوں قبل حاصل کیے گئے آپریشنل نظام کی جنگی صلاحیت کو یقینی بناتی ہے۔ اس کے برعکس ہندوستان اپنے حاصل کردہ اور مقامی طور پر تعمیر شدہ میزائل سسٹم پر انحصاری کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، یہاں نیربھے کروز میزائل کی حالیہ کارکردگی کا ذکر ضروری ہے جو برسوں کے تجربات اور آزمائشوں کے باوجود پھر ناکام ہوگیا۔
پاک بحریہ کی جانب سے میزائل فائرنگ کے مظاہرہ بہت اہم وقت پر کیا گیا کہ جب بھارتی بحریہ نے ساحل پر اپنے میزائلوں کا تجربہ کیا۔ یہ تجربات ایک ایسے وقت پر کیے گئے ہیں جب بھارت امریکا کے ساتھ تعاون کے ذریعے ’’نیٹ سیکورٹی پرووائیڈر‘‘ کی حیثیت سے پھل پھول رہا ہے اور خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو چیلنج کرنے کے لیے ’’کواڈ‘‘ یا ’’ایشین ناٹو‘‘ کا شراکت دار ہے۔ پاکستان کا یہ پیغام پختہ اور واضح تھا کہ وہ علاقائی تسلط، علاقائی سلامتی کے استحکام میں ردوبدل اور پاکستان کو ڈرانے دھمکانے کے بھارتی تصورات کو غلط ثابت کرے۔ عام زبان میں، سمندر میں کسی بھی قسم کی بدانتظامی کے ساتھ مضبوطی اور برابری کے ساتھ نمٹا جائے گا۔ اس میزائل فائرنگ کا ایک اہم پہلو بحریہ کی کمان سنبھالنے کے فوراً بعد ہی اپنی فوج کے مابین فرنٹ لائن پر پاک بحریہ کے سربراہ کی موجودگی تھا۔ یہ واضح طور پر عملی سوچ اور ہموار تعلق کا اسٹرٹیجک سے لے کر حکمت عملی کی سطح تک واضح ہونا اور قائد کی نیت کے ساتھ فوج کی رائے کی مماثلت کا بھی عکاس ہے۔
پاکستان کی آزادی کے بعد سے ہر ایک بھارتی حکومت، بالخصوص برسراقتدار فاشسٹ حکومت، پاکستان کو کالعدم قرار دینے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہی ہے۔ اربوں ڈالر مالیت کے فوجی اثاثوں کا حصول مسلسل جاری ہے لیکن بھارتی حکومت اپنی ہی غربت سے متاثرہ آبادی کی دکھی حالت زار کو واضح طور پر نظرانداز کیے ہوئے ہے۔ ہندوستانی تسلط پسندانہ خواہشات، پاک چائنا اقتصادی راہداری سے اس کا خوفزدہ ہونا اور امریکا کے ساتھ BECA کا حالیہ معاہدہ علاقائی سلامتی کے توازن کو خراب کر سکتا ہے۔ پاکستان بحریہ کی حالیہ میزائل فائرنگ نہ صرف مزاحمت کے ذریعے علاقائی استحکام کو برقرار رکھنے اور اس کو فروغ دینے کی طرف ایک مثبت قدم ہے بلکہ ایک متشدد سر زمین کے خلاف اس کے اٹل ارادے کا مظہر بھی ہے۔