فرانسیسی صدر پوری دنیا میں نفرت کی علامت بن گئے ہیں۔ فرانس میں رسول اللہؐ کے خاکوں کی اشاعت اور صدر فرانس کے اس کے بارے میں بیانات کے بعد مسلم دنیا میں اُن کے اور اُن کے بیانات کے خلاف مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ دسیوں ہزار مظاہرین اس میں شریک ہوئے اور پیارے نبی محمدؐ سے محبت کا اظہار کیا اور فرانس کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا۔ آزادی اظہار کے نام پر ایک فرانسیسی ٹیچر نے کم عمر بچوں کو رسول اللہؐ کے خاکے دکھائے۔ والدین کے اعتراضات اسکول انتظامیہ نے مسترد کردیے۔ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر یہ عمل کسی طرح بھی اظہار رائے کی آزادی کے زمرے میں نہیں آسکتا۔ کیا فرانس کے صدر اپنے بارے میں توہین آمیز جملے اور خاکے برداشت کرسکتے ہیں؟ انہوں نے تو ترکی کے صدر کی تنقید برداشت نہیں کی۔ فرانس کے آئین میں خود وضاحت کی گئی ہے کہ ’’آزادی کا حق اس حد تک تسلیم کیا جائے گا جب تک اس سے کسی دوسرے شخص کا حق متاثر یا مجروح نہ ہو‘‘۔ فرانس کے صدر کا کہنا تھا کہ ’’استاد کو اس لیے قتل کیا گیا کیوں کہ اسلامی انتہا پسند ہمارا مستقبل چھیننا چاہتے ہیں اور فرانس (متنازع) خاکوں سے پیچھے نہیں ہٹے گا‘‘۔ لیکن معاشی نقصان کا ایک جھٹکا انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کر گیا۔ جب ترکی، پاکستان، ملائیشیا سے لے کر اردن، کویت اور دیگر اسلامی ممالک کے عوام نے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ مسلم اکثریتی ممالک میں سپر مارکیٹوں میں دکانداروں نے فرانسیسی مصنوعات سے بھرے شیلف خالی کردیے اور سوشل میڈیا پر ’’بائیکاٹ فرینچ پراڈکس‘‘ جیسے ہیش ٹیگ گزشتہ ہفتے سے ٹرینڈ کررہے ہیں۔ کیوں کہ فرانسیسی صدر نفرت اور تعصب کی علامت بن گئے ہیں۔ اگر ان کو ہوش آگیا ہے اور وہ اپنے تازہ بیان میں کہہ رہے ہیں کہ ’’میں کسی کو یہ دعویٰ نہیں کرنے دوں گا کہ فرانسیسی حکومت مسلمانوں کے خلاف نسل پرستی کو فروغ دے رہی ہے‘‘۔ اُن کے اس بیان کو اُسی وقت توجہ دی جاسکتی ہے جب وہ فرانسیسی استاد کے عمل کو مسترد کریں۔ مسلمانوں سے معافی مانگیں اور سرکاری سطح پر چارلی ایبڈو کی سرپرستی سے انکار کریں۔ یہ رسالہ مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی میں پیش پیش رہتا ہے۔ ابھی بھی اس نے جلتی پر تیل ڈالنے کے لیے ترک صدر کا توہین آمیز خاکہ شائع کیا ہے۔ لیکن اس خاکے میں مسلمان خاتون کی تصویر زیادہ توہین آمیز ہے اور ساری مسلم خواتین کے لیے انتہائی ناقابل برداشت ہے۔ کیا ایسے خاکے معاشرے میں نفرت اور تعصب کے علاوہ بھی کچھ پروان چڑھا سکتے ہیں۔ حقیقت میں یہ فرد نہیں پوری مسلمان اُمت کی تضحیک کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے نفرت پر اُکساتے ہیں۔
مغرب اسلام اور مسلمانوں پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کا الزام لگاتا ہے۔ حقیقت میں وہ خود انتہا پسندی کی بلندی پر کھڑا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں کو زخمی کرکے وہ جس انتہا پسندی کا ثبوت دے رہے تھے اس کا جواب انہیں مسلمانوں نے نہایت تحمل کے ساتھ دے دیا ہے۔ پیارے نبی محمدؐ کے ساتھ عقیدت اور محبت کے رشتے کے اظہار کے لیے نہ موسم کی پروا کی گئی اور نہ عمر دیکھی گئی۔ ساری دنیا میں مسلمان بارش، گرمی، سردی، کسی کو بھی خاطر میں نہ لائے۔ بچے، بوڑھے، جوان سب ہی موجود تھے۔ یہاں تک کہ وہیل چیئر پر بھی ضعیف اور کمزور لوگ بھی موجود تھے۔ ننھے بچے، والدین کی گودوں میں نبیؐ سے محبت کے اظہار کے لیے کھڑے تھے۔ موریطانیہ کی حبا محمد صاف صاف کہتی ہیں کہ فرانس کے صدر دنیا کے 2 ارب مسلمانوں سے اپنے بیان پر معافی مانگیں۔ اور ہم فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ اس اُمید سے کررہے ہیں کہ اُن کی معیشت بیٹھ جائے اور وہ اپنے قابل اعتراض اور مسلم مخالف بیانات پر مسلم دُنیا سے معافی مانگیں۔ پتا نہیں فرانس کے صدر کو یہ بات پہلے سمجھ میں کیوں نہ آئی کہ ایسی تصاویر جو ایک بڑی دُنیا کے لیے قابل اعتراض اور تضحیک آمیز ہوں انہیں وہ کیسے غیر ضروری کوریج دینے کے لیے بڑھاوا دیں۔ یہ آزادیِ اظہار ہرگز نہیں ہے بلکہ ایک متشددانہ حملہ ہے۔ ایک انتہائی گھٹیا حرکت ہے۔ نوجوان جو خود ہی بہت جذباتی ہوتے ہیں ایسی حرکتوں سے ان کے جذبات مزید برانگیختہ کرنے کی کوشش ہے۔
فرانس کے شہر ینس میں چاقو سے جو حملہ کیا گیا وہ تو خود فرانسیسی صدر کی کوششوں سے ہوا۔ فرانس کی مسلم کونسل نے ینس چاقو حملے کی مذمت کی ہے اور متاثرین اور ان کے خاندانوں سے ہمدردی کی ہے۔ ایسا ہی کیا جانا چاہیے کیوں کہ اسلام ایک انصاف پسند اور روادار مذہب ہے اور اس کو مانے والے یعنی مسلمان بھی صبر، برداشت، رواداری اور انصاف کو پسند کرتے ہیں۔ مسلمان دہشت گرد ہیں نہ انتہا پسند۔ وہ تو خود دہشت گردی اور انتہا پسندی کا شکار ہیں۔ مسلمانوں کے کتنے ہی ملک وہاں بسنے والے لوگ، افغانستان، عراق، شام ہو یا روہنگیا اور کشمیر کے مسلمان سب ہی تشدد اور دہشت گردی کی زد میں ہیں اور خوف کی فضا میں زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن فرانس کے صدر کا تازہ بیان اس بات کا اظہار ہے کہ مسلمانوں کا اتحاد ہی انہیں محفوظ بھی رکھ سکتا ہے اور سربلند بھی، اور مغرب کا معاشی نقصان وہ نازک رگ ہے جس پر 2 ارب مسلمان اپنی ایک اُنگلی سے دبائو ڈال سکتے ہیں۔