حکومتی پالیسیاں اور بد عنوانیاںبے روزگاری میں اضافے کا سبب ہیں

103

کراچی (رپورٹ: قاضی جاوید )ملک بھر کے ماہر ِ معاشیا ت ، تاجروں اور صنعتکاروں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ ’’افراط زر ‘‘سے زیادہ حکومتی پالیسیاں اور بد عنوانی بیروزگاری میں اضافہ کررہی ہیں ۔پروفیسراکنا مکس یو نیورسٹی آف گجرات ڈاکٹرسمیع اللہ کاکہنا ہے کہ دنیا میں بے روزگاری میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ کوویڈ19ہے ، 200 ممالک میں لاک ڈائون کے نفاذ سے وائٹ کالر سروس کر نے والوں کو شدید بے روزگاری کا سامنا ہے اور یہ ابھی بھی جاری ہے۔ گزشتہ 7 ماہ کے دوران پاکستان کی معیشت کورونا وائرس کے پھیلنے سے بری طرح متاثر ہوئی تھی ، کراچی اور لاہور کے شہری بارش و سیلاب سے بھی متاثر ہوئے تھے۔ صنعتیں خصوصاً ایس ایم ایز کورونا وبا کے بعد معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں اور انہیں سبسڈی یا چھوٹ دینے کے بجائے قدرتی گیس مہنگی کرنا ظالمانہ رویہ محسوس ہوتا ہے، گیس کی قیمتوں میں اضافے سے معیشت مزید کمزور ہوگی جو کہ پہلے ہی مختلف مسائل سے دوچار ہے۔ ملک کے نوجوان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے ،بے روزگاری میں اضافے سے عوام پر معاشی اور معاشرتی منفی اثرات پڑنے شروع ہو جاتے ہیں ۔ ان حالات سے بچنا اہم مسئلہ ہے اور اس پر حکومت کو بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔سب کچھ بند کر دینا مسئلے کا حل نہیں اس سے ملازمت کر نے والا تباہ ہو جاتا ہے ۔ڈائریکٹر کراچی یونیورسٹی پروفیسر ایم سلیم میمن کا کہنا ہے کہ ملک میں اول تو روزگار کم ہے اور دوسری جانب بد عنوانیوں نے حالات کو اور بھی خراب کر دیا ہے۔ افراط زر کی شرح بڑھنے کی اصل وجوہا ت میں بدعنوانی سے کمائی میں اضافہ ہے، ہر حکومت ملک کو لوٹنے میں مصروف ہے ۔ملک میںروزگا ر کے راستوں کو کوویڈ19سے زیادہ بد عنوانی نے روک رکھا ہے ۔ آئی ایم ایف ،عالمی بینک و دیگر مالیاتی اداروںکی ہمارے ملک کے حالات پر جو رپورٹ ہے اس پر غور کر نے کی ضرورت ہے ۔ عالمی معیشت نے بتدریج بحالی کا آغاز کیا ہے، لیکن معیشت کی بحالی آسانی سے نہیں ہوسکی ہے، غریب ممالک تاحال زندگی بچانے والی عوامی خدمات کے بجائے قرضوں کی ادائیگی پر زیادہ خرچ کررہے ہیں، ہر ملک ٹیکس کی بڑی رقم غیر ملکی قرض دہندگان کو ادا کرتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے سال پاکستان نے قرض دہندگان کو 11.6 بلین ڈالر کی ادائیگی کی تھی جو اس وقت اس کے ذخائر میں اتنا ہی ہے جتنا اس کے مرکزی بینک کے پاس ہے۔ یہ بہت خوش آئند ہے کہ پاکستان نے مختلف ممالک کے ساتھ ساتھ اجتماعی طور پر سود کی ادائیگیوں کو موخر کرنے کا مطالبہ کیا ہے، کیونکہ ان کا زیادہ تر قرض ایسے قرضوں پر مشتمل ہے جو قرضوں کے چکر میں پھنس کر پچھلے قرضوں کی ادائیگی کے لیے لیا گیا ہے۔انہوں نے اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 12 بلین ڈالر سے نیچے آچکے ہیں، اس کے ذخائر9اکتو بر کو11.79 بلین ڈالرتھے جبکہ 11 ستمبر 2020 ء کو 12.82 بلین ڈالر پر رہنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک ہی مہینے میں 1 بلین ڈالر سے زیادہ کی کمی آئی ہے ۔18 ستمبر کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران، قرضوں کی ادائیگیوں کی وجہ سے بھی اسٹیٹ بینک کے ذخائر 119 ملین ڈالر کم ہو کر 12.70 بلین ڈالر رہ گئے ۔ 25 ستمبر 2020ء کو ختم ہونے والے ہفتے میں اسٹیٹ بینک کے ذخائر 342 ملین ڈالر کی کمی سے 12.36 بلین ڈالر ہوگئے اگر اس میں کمی ہو ئی تو اس سے ملک کو بھاری نقصان ہو گا۔فیڈریشن آف پاکستان چیمبر ز آف کامر س اینڈ انڈسٹر ی کے صدر میاں انجم نثار نے کہاکہ ملک میں روزگا ر میںاضافے کے لیے صنعت کا پہیہ چلانا ہو گا،لیکن 23اکتوبر کو وفاقی وزیر پیٹرولیم غلام سرور خان اوروفاقی وزیر فواد چودھری نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صارفین سے 94 ارب روپے کی وصولی کے لیے قدرتی گیس کی قیمتوں میں 143 فیصد تک اضافے کا اعلان کیا۔ جس کے باعث ملک کی صنعتی پیداوار لاگت میں اضافہ ہو گااور بے روزگاری اورمہنگائی میں اضافے کا خدشہ ہے۔ گیس قیمتوں میں اضافے کا اثر براہ راست 9.4 ملین علاقائی صنعتی صارفین پر پڑے گا جن میں سے 3.6 ملین کم آمدنی والے 2.63 ملین سب سے کم آمدنی والے گروپ شامل ہیں۔ گیس کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے بجلی بھی 12فیصدمہنگی ہوجائے گی، کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے گھریلو صارفین کے لیے گیس کی قیمتوں میں چھوٹے درجے کے صارفین سے لے کر بڑے درجے کے صارفین تک بتدریج 10 فیصد سے 143 فیصد تک اضافے کی اجازت دی ہے۔ ای سی سی نے تجارتی اور صنعتی صارفین کے لیے گیس کی قیمتوں کو 30 سے بڑھا کر 57 فیصد کرنے کی بھی منظوری دی ہے۔ اس سے کھاد، مینوفیکچرنگ یونٹس، بجلی کی پیداوار، سیمنٹ اور کمپریسڈ نیچرل گیس (سی این جی) کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ میاں انجم نثار نے کہاکہ توقع کی جارہی ہے کہ آنے والے ہفتوں میں گیس کی قیمتوں میں 143 فیصد تک اضافے کے بعد بجلی کی قیمتوں میں تقریباً 35 فیصد اضافے کا امکان ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گیس صارفین رواں مالی سال میں 94 ارب روپے اضافی ادا کرینگے۔گو کہ وزارت پیٹرولیم (پیٹرولیم ڈویژن) نے ستمبر 2020ء میں قدرتی گیس کی قیمتوں میں کمی کی تجویز پیش کی تھی اس دوران بجلی گھروں میں 12.3 فیصد، ٹیکسٹائل کے شعبے کے لیے 15.2 فیصد، ٹیکسٹائل پروسیسنگ کے لیے 5.6 فیصد، 4.5 فیصد گیس کی صنعت اور سی این جی کے لیے، سیمنٹ کے لیے 3.9 فیصد اور بجلی کے شعبے کے لیے 5.4 فیصد کمی کی تجویز تھی۔میاںا نجم نثار نے کہا کہ اس فیصلے سے صنعتی شعبے بالخصوص برآمد کنندگان کو سنگین اثرات سہنے پڑیں گے اور ویلیو ایڈڈ سیکٹر کو سخت دھچکا لگے گا جس سے توانائی کی لاگت کے ساتھ ساتھ برآمد ہونے والے سامان کی پیداواری لاگت بھی متاثر ہوگی۔صدر ایف پی سی سی آئی نے حکومت سے ایس ایس جی سی کے گیس نرخوں میں اضافے کی تجویز کو واپس لینے کا مطالبہ کیاجس سے بہت سی صنعتوں کے بند ہونے کا خطرہ ہو گا جو بے روزگاری اور معاشی عدم استحکام کا باعث بنے گا۔اس کا حل یہ ہے کہ ملک کے تاجروں اور صنعتکا روں کو کا م کر نے کی کھلی چھوٹ دی جائے تاکہ بے روزگاری پر کنٹرول کیا جائے۔