اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) ملک کی سیاسی شخصیات‘ تاجروں کی تنظیم کے عہدیداروں‘ دانش ور طبقے اور معاشرے کے دیگر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے ملک میں غریب افراد کی سماجی دیکھ بھال‘ تعلیم‘ صحت کی سہولتوں‘ مہنگائی ختم کرنے اور سیاسی جماعتوں کی سطح پر فلاحی سرگرمیاں شروع کرنے اور اداروں کو فعال بنانے کا مطالبہ کیا ہے اور اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ ملک میں غریب لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ کے اندر یا باہر اور حکومت کی سطح پر فعال نظام ہونا چاہیے اور سرکاروں اداروں کو بھی اپنی کارکردگی کے حوالے سے خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے۔ روزنامہ جسارت کے سروے کہ ملک میں 3بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ(ن)‘ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف میں خدمت خلق کے شعبے کیوں نہیں ہیں کہ سوال پر تحریک انصاف کی رہنما وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے غربت مٹائو اور سماجی تحفظ پروگرام ثانیہ نشتر نے کہا کہ یہ بہت ہی حساس موضوع ہے ،ہماری حکومت نے کورونا وائرس کی حالیہ وبا کے دوران ملک بھر سے ڈیٹا اکٹھا کیا اور ان کی روشنی میں شفاف انداز میں ایک کروڑ غریب اور مستحق گھرانوں میں نادرا کے ذریعے بارہ بارہ ہزار روپے تقسیم کیے‘ ہماری حکومت نے مرغیاں پالنے کی اسکیم دی‘ اور ہم سماجی بہبود کے لیے منصوبوں کے سب سے بڑے ہامی ہیں اور انہیں فعال بنانا ہماری اولین ترجیح ہے‘ تحریک انصاف کے پاس شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی جیسے شہرت یافتہ منصوبے اور سماجی خدمت کے بہترین ماڈل ہیں۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے ویژن کے مطابق پوری حکومتی مشینری سماجی شعبوں میں بہتر نتائج کے لیے کام کر رہی ہے، ہم اس ملک میں عام آدمی کو پائوں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں اور اسے روزگار فراہم کرنا ہماری ترجیح ہے، ہماری کوشش ہے کہ ایسا نظام یہاں لایا جائے کہ ہمارے معاشرے میںکوئی زکوۃ لینے والا نہ ہو، اسی لیے تو ہم اپنے منشور میں ایک کروڑ ملازمتوں کی فراہمی کی بات کی تھی۔ثانیہ نشتر نے کہا کہ ہماری حکومت اپنے وسائل کے بہترین استعمال کے ساتھ اپنے اس منشور پر عمل کر رہی ہے‘ جس کے لیے ہم نے وزارتوں سمیت ہر جگہ غیر ضروری تمام اخراجات ختم کردیے ہیں اور ہماری ترجیح صرف غریب عوام ہیں کہ انہیں زندگی گزارنے کے لیے بہترین اور قابل عزت ماحول فراہم کیا جائے ۔انہوں نے بتایا کہحکومت روزگار کی فراہمی کے لیے نوجوانوں کو ہنر سکھانے کے ادارے قائم کیے ہیں اور انہیں فعال بھی بنایا جارہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہمہنگائی ایک مسئلہ ہے، اس کے حل کے لیے وزیر اعظم عمران خان بہت سنجیدہ ہیں اور اس کے ذمے دار مافیا کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جارہی ہے‘ جلد ہی اس کے بہتر نتائج عوام تک پہنچیں گے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے اقتدار میں آکر غریب عوام کے لیے بے شمار کام کیے ہیں‘پیپلزپارٹی کے بانی نے مزدور پالیسی دی‘ جس میں انہیں ملازمتوں کا تحفظ دیا گیا‘ ان کے بچوں کی شادی اور تعلیم کے اخراجات کے لیے حکومت نے خود ذمے داری لی‘ ان کے بعد بے نظیر بھٹو کو حکومت ملی تو انہوں نے محنت کش خواتین کے لیے کسانوں اور کاشت کاروں کے لیے فلاحی کام کیے‘ ان کے لیے ملازمتوں کا بندوبست کیا اور تیسری بار جب اقتدار ملا تو ہم نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا‘ جس کے لیے ابتداء میں جو رقم رکھی گئی اب اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، یہ پروگرام غریب گھرانوں کے لیے بہت مفید ہے‘ یہ سب اقدام ہم نے پارٹی منشور کے مطابق کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی عوام کی فلاحی منصوبوں کی اہمیت سے واقف ہے اور اسے ترجیح بھی دیتی ہے‘ ہمارے پارٹی رہنمائوں پر تو غریب لوگوں کو معاشی بوجھ سے باہر نکالنے کے لیے ملازمتیں دینے پر بھی مقدمے بنائے گئے ہیں۔ بلوچستان سے سیاسی رہنما جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی شاہ زین بگٹی نے کہا کہ یہ ایک اہم مسئلہ اور ایشو ہے جسے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر ہی حل کرنا ہوگا‘ جب ملک کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس معاملے پر غور کے لیے بیٹھیں گی تو ہماری پارٹی اس میں موقف رکھے گی‘ اہم ترین سماجی ایشوز پر ضرور بات ہونی چاہیے ،سیاسی جماعتوں خدمت خلق کے شعبے کا ہونا بہت ہی اچھی بات ہوگی ،قومی سطح پر ایسی کوشش ضرور ہونی چاہیے تاکہ یہ معاملہ ایک قومی معاملے کی طرح دیکھا جائے اور اس موضوع پر بات شروع ہونی چاہیے۔ اے این پی کے رہنمااور سابق سینیٹر زاہد خان نے کہا کہ اے این پی تو خدائی خدمت گار سیاسی جماعت ہے‘ ہمیں معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کے مسائل کا علم ہے‘ اے این پی نے ہمیشہ ہر سطح پر پسے ہوئے عوام اور مزدور طبقے کی فلاح کی بات کی ہے‘ ہم تو اس بات کے قائل ہیں کہ جب دایاں ہاتھ دے تو بائیں ہاتھ کو علم نہ ہو۔گلگت بلتستان سے تاجر رہنما اور فیڈریشن آف چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے نائب صدر قربان حسین نے کہا کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور ہر حکومت کا یہ فرض ہے کہ عوام کی فلاح اور بہبود کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کرے اور ملک میں کوئی ایسا منصفانہ نظام ہونا چاہیے کہ جس کی مدد سے ایسے معاشرے کی تشکیل ہوجائے کہ کوئی شخص بھی بھوکا نہ سوئے‘ اور اسے اس کی صلاحیتیوں کے مطابق جائز روزگار ملے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو ضرور سماجی خدمات کے لیے آگے آنا چاہیے۔ نیشنل لیبر فیڈریشن کے صدر شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں سیاسی جماعتیں غریب عوام کے حقیقی مسائل اور درد کو سمجھیں اور حکومت میں آکر فلاحی امور انجام دینے والے اداروں کی کارکردگی کا مسلسل جائزہ لیا جائے کہ وہاں کسی کی داد رسی ہورہی ہے یا نہیں‘ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سماجی امور انجام دینے والے ادارے غیر فعال ہیں اور وہاں مستحق افراد کی داد رسی کا کوئی قابل ذکر نظام نہیں ہے‘ ملک میں غریب لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ کے اندر یا باہر اور حکومت کی سطح پر فعال نظام ہونا چاہیے اور سرکاروں اداروں کو بھی اپنی کارکردگی کے حوالے سے خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے۔ممتاز دانش ور کالم نگار کشور ناہید نے کہا کہ حکومت طاقت اور ظلم کے کاموں کے لیے رہ گئی ہے۔ اسے تعلیم‘صحت اور مہنگائی جیسے اہم ایشوز پر دیکھنا اور سوچنا چاہیے ،یہ کام ہماری کسی حکومت نے اس طرح نہیں کیا جس طرح اس کی ضرورت ہے‘ ملک میں اب تک مسلم لیگ‘ پیپلزپارٹی اور اب تحریک انصاف بھی حکومت میں ہے تاہم ملک میں تعلیم‘صحت کے لیے اور مہنگائی ختم کرنے کے لیے غربت مٹانے کے لیے عملی کام کرنے کی ضرورت ہے سیاسی جماعتوں کو اس جانب بھرپور توجہ دینا چاہیے۔ پاکستان پیپلزپارٹی ورکرز کے مرکزی سیکرٹری فنانس ابن رضوی نے کہا کہ ان تینوں جماعتوں کے رہنمائوں اور لیڈر شپ کے اپنے پیٹ بھریں گے تو دوسروں کے لیے سوچیں گے یہ المیہ ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں کے پاس اپنی تنظیم کی سطح پر غریب عوام کے لیے کوئی فلاحی کام نہیں ہے اور نہ اس کی ترجیحات میں شامل ہے۔ ابن رضوی نے سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے ساتھ فرنٹ فٹ پر کام کیا ہے تاہم اب وہ پیپلزپارٹی ورکرز کے ساتھ ہیں اور مرکزی سیکرٹری فنانس کے طور پر کام کر رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ کرپشن میں لتھڑی ہوئی ہے۔ اسے اپنے خلاف الزامات کی عدالتوں میں بے گناہی ثابت کرنی اور اپنے حق میں صفائی دینی چاہیے۔ بلوچستان کے سابق ایڈووکیٹ جنرل صلاح الدین مینگل نے کہا کہ یہ بد قسمتی کی بات ہے ملک کی سیاسی جماعتوں میں حقیقی جمہوریت متعارف نہیں کرائی گئی ہے ان جماعتوں میں صرف ٹھگوں کی مناپلی ہے انہیں انسانیت سے کوئی ہمدردی ہے اور نہ اس کی کوئی فکر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصل میں یہ ملک میں قانون کی حکمرانی کی موت ہے اور اسی لیے سیاسی جماعتوں میں انسانیت کی بھلائی اور ویلفیئر کے لیے کوئی شعبہ ہے اور نہ کوئی پروگرام۔پاکستان ہاکی کے مایہ ناز کھلاڑی اولمپیئن رائو سلیم ناظم نے جسارت کے سوال پر بتایا کہ ویلفیئر کا تعلق غریب اور معاشی لحاظ سے پسے ہوئے شہریوں سے ہوتا ہے سیاسی جماعتوں نے جان بوجھ کر یہ شعبہ نظر انداز کیا ہوا ہے کیونکہ پھر انہیں ویلفیئر سے متعلق لوگوں کی مطالبات‘ شکایات اور ضروریات کو دیکھنا پڑتا ہے اس وقت سوشل میڈیا ہے جو ہے وہ تقریباً فلاحی کام ہی کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود حکومت ٹس نے مس نہیں ہورہی ہے، یہ حکمران جماعت کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ ویلفیئر کے لیے کام کرے اور شعبہ بنائے یہ شعبہ ہماری سیاسی جماعتوں کی ترجیح اس لیے نہیں ہوتا کہ اقتدار میں آکر ان لوگوں کے لیے کام کرنا پڑتا ہے لہٰذا سیاسی جماعتیں اس شعبے پر توجہ نہیں دیتی ہیں‘ ابھی وزیر اعظم نے عام شہریوں کے لیے شکایت درج کرانے کے لیے سیٹیزن پورٹل بنایا ہوا ہے جس کے ذریعے لوگ حکومتی اداروں سے متعلق اپنی شکایات سے حکومت اور حکومتی اداروں کو آگاہ کرتے ہیں، بہت سی کمزوریوں کے باوجود اس کا بہت سا فائدہ بھی ہوا ہے، اگر حکومت اس شعبے کو ایک فعال شعبہ بناتی تو دیکھتے کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد یہاں اپنی شکایات درج کراتی اسی طرح جو اپوزیشن ہوتی جسے جمہوری نظام میں حکومت کے لیے منتظر پارٹی کہا جاتا ہے یہاں بھی کسی ایسی جماعت نے کوئی کام نہیں کیا‘ اب سندھ میں پیپلزپارٹی حکومت میں ہے مگر اس نے بھی یہاں کوئی ایسا شعبہ قائم نہیں کیا یہ بدقسمتی ہے۔ اداکارہ مہوش حیات نے کہا کہ یہ موضوع بہت اچھا ہے اور ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہمارے ملک میں سماجی انصاف بھی میسر ہو اور عوام خوشحال ہوں‘ سماجی کام کرنا ہر شہری کا بھی فرض کہ وہ اپنی ہمت اور بساط کے مطابق فلاحی کام کرے اور اس طرح کی سرگرمیوں کو فروغ دے۔