پاکستانی سیاست میں امریکی مداخلت؟

270

اسلام آباد میں قائم امریکی سفارت خانے نے سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال کی جانب سے وزیراعظم عمران خان سے متعلق کی جانے والی ’’غیر مجاز ٹویٹ‘‘ شیئر کرنے پر معافی مانگ لی ہے۔ امریکی سفارت خانے نے ٹویٹر پر جاری پیغام میں کہا ہے کہ گزشتہ رات سفارت خانے کا ٹویٹر اکائونٹ بغیر اجازت کے استعمال ہوا، امریکی سفارت خانہ سیاسی پیغامات کو ری ٹویٹ یا ان کی پوسٹنگ کی حمایت نہیں کرتا، ہم غیر مجاز پوسٹ کی وجہ سے پیدا ہونے والی اُلجھن پر معافی کے خواست گار ہیں۔ امریکی سفارت خانے کی معافی کا پس منظر یہ ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست کے بعد مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ایک شہ سرخی ری ٹویٹ کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ’’ٹرمپ کی شکست دنیا بھر کے آمروں کے لیے ایک دھچکا ہے‘‘۔ واشنگٹن پوسٹ کی سرخی پر بظاہر عمران خان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’ہمارے پاس پاکستان میں ایسا شخص ہے جلد اسے بھی باہر کا راستہ دکھایا جائے گا‘‘۔ احسن اقبال کے اس ٹویٹ کو امریکی سفارت خانے کے سرکاری اکائونٹ پر بھی نشر کردیا گیا۔ جس کے بعد سماجی ذرائع ابلاغ (سوشل میڈیا) پر شدید ردعمل آیا۔ پہلے تو امریکی سفارت خانے نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ سے مذکورہ ٹویٹ کو حذف کیا۔ بعد میں عوامی ردعمل کی شدت سے متاثر ہو کر باقاعدہ معافی نامہ بھی جاری کیا گیا۔ امریکی سفارت خانے کی معافی کو وفاقی وزیر اور تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے مسترد کردیا۔ شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ اتنی تاخیر کے بعد امریکی سفارت خانے کی معذرت کافی نہیں۔ واضح ہوگیا سفارت خانے کا ٹویٹر اکائونٹ ہیک نہیں کیا گیا۔ جس کسی کو اس اکائونٹ تک رسائی ہوگی تو اسی نے اکائونٹ استعمال کیا۔ یہ بات قابل قبول نہیں کہ امریکی سفارت خانے میں کام کرنے والا شخص سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہا ہے۔ امریکی سفارت خانے اور پاکستان کے درمیان اس تنازع سے دو باتیں عیاں ہوگئی ہیں۔ ایک بات تو یہ ہے کہ منتخب حکمران بھی ’’آمر‘‘ ہوسکتے ہیں۔ یہ بات امریکا کے کثیر الاشاعت اور اہم اخبار واشنگٹن پوسٹ کی جانب سے آئی ہے اور امریکی صدر بھی آمر ہوسکتا ہے اور واشنگٹن پوسٹ کے امریکی انتخابی نتائج پر تبصر کی مسلم لیگ (ن) کی جانب سے کی حمایت اس کی تصدیقِ مزید ہے۔ یعنی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا سربراہ آمر ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ ہٹلر اور موسولینی بھی منتخب ہو کر آئے تھے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر سنجیدہ بحث کی ضرورت ہے۔ صرف پاکستان ہی نہیں امریکی نظام انتخاب اور طرزِ حکمرانی بھی عالمی سطح پر بحث کا مرکز بن چکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقبول ترین سیاسی رہنما بھی ضروری نہیں کہ ایک اچھا حکمران ہو۔ جمہوریت کے بحران کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی جیسے نسل پرست اور متعصب اشخاص مقبولیت حاصل کرسکتے ہیں اور اب بھی ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آتی ہے۔ ایسے اشخاص کی روشنی میں باقی حکمرانوں کے دوہرے چہرے کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ دوسرا مسئلہ بھی زندہ ہوگیا ہے۔ اور وہ ہے پاکستان کی داخلی سیاست میں اندرونی مداخلت۔ وفاقی وزیر شیریں مزاری نے تو امریکی سفارت خانے پر پاکستان کی اندرونی سیاست میں مداخلت کرنے کا واضح الزام عاید کردیا ہے۔ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے، لیکن سیاسی رہنما اور تجزیہ کار اس اہم ترین موضوع پر بات کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ این آر او پاکستان کی سیاسی لغت کی ایک اصطلاح بن چکی ہے۔ اس اصطلاح کا رواج پاکستان کی سیاسی لغت میں امریکی مداخلت کی ایک شہادت ہے۔ اس مداخلت کی تصدیق سابق امریکی سیکرٹری خارجہ کنڈو لیزارائس نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ جس کے مطابق انہوں نے جنرل (ر) پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو مرحومہ کے درمیان سمجھوتا کروایا۔ نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن بھی سینیٹر کی حیثیت سے دو مرتبہ پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں اور ان کا دورہ بھی پاکستان کی داخلی سیاست کے حوالے سے تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں فوجی حکمرانی بھی امریکی اجازت کے بغیر قائم نہیں ہوتی۔ موجودہ جمہوری تماشا بھی امریکی احکامات کا نتیجہ ہے۔ پاکستان میں امریکا کو کمزور جمہوری حکمرانوں کی ضرورت ہے جو امریکا اور عالمی مالیاتی اداروں کے احکامات کی تابعداری کرسکیں۔ نائن الیون کے بعد اور افغانستان پر قبضے کے نتیجے میں امریکی بالادستی اور سپرمیسی کو جو بحران درپیش تھا اس سے نمٹنے کے لیے امریکا کو سیاسی قیادت کی ضرورت تھی۔ اسی وجہ سے پس پردہ کھیل کے ذریعے جنرل (ر) پرویز مشرف کو معزول کیا گیا۔ اس کی تصدیق بھی امریکی ذرائع ابلاغ کرچکے ہیں۔ موجودہ تنازع بظاہر ایک ٹویٹ کا ہے لیکن اس تنازعے نے پاکستان کی داخلی سیاست میں امریکی مداخلت کے مسئلے کو زندہ کردیا ہے اور اس پر بات کی جانی چاہیے۔