دعا سب کے لیے

148

ایک نہایت معصوم سی بات ہے اور اس میں سبق بہت بڑا ہے۔ ماں کی گود سے لحد تک علم حاصل کرنے کی بات تو ہم بے شمار مرتبہ سن بھی چکے ہیں اور پڑھ بھی چکے ہیں، اقبالؒ قومی شاعر تھے بلاشبہ ایک روشن تاریخ تھے جب تک شاعری ہے ان کا نام رہے گا۔ اردو اور فارسی پر انہیں عبور تھا۔ کہتے ہیں
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی، اولاد بھی، جاگیر بھی فتنہ
نا حق کے لیے اُٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا، نعرۂ تکبیر بھی فتنہ
اقبال کی شاعری میں ایک مکمل پیغام ہے، یہ پیغام اب ہمیں درسی کتب میں کم ہی ملتا ہے کہ ہم اغیار کے کہنے میں آکر اپنا تعلیمی نصاب ہی بدل چکے ہیں۔ آج کا تعلیمی نصاب ہمیں اللہ سے دور لے جارہا ہے اور اسی کو تو اقبالؒ نے فتنہ کہا ہے، ہم خوش ہو رہے ہیں اور اس بحث میں مبتلا ہیںکہ ٹرمپ چلا گیا اور جو بائیڈن آگیا۔ ان سے پہلے بھی کچھ صدور آئے اور کچھ گئے، امریکا اور اس کی سوچ وہیں رہی، اب بھی وہی ہوگا جو امریکی پالیسی ساز چاہیں گے۔ سوال تو یہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے؟ کیا ہم نے بھی اور ہمارے پالیسی سازوں میں کوئی لہر پیدا ہوگی، کہیں کوئی ارتعاش پیدا ہوگا؟ جب سے تعلیمی نصاب بدلا ہے ہماری املاک اور ہماری اولاد بھی ہمارے ہاتھوں میں نہیں رہی، مبلغ کی تبلیغ اپنی جگہ اب تو بچوں کے ہاتھوں میں پب جی گیم ہے اور بچے اسی میں مست ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور ہمارا معاشرہ اپنے اس مستقبل کے حوالے سے کس قدر خاموش ہے، اللہ کی پناہ، پب جی گیم کھیلنے میں مگن بچوں کو اس بات کی فکر ہی نہیں اذان بھی ہورہی ہے یا نہیں، نماز ادا کرنی ہے یا کھانا کھانا ہے۔ انہیں کوئی فکر نہیں، ہمارے ارد گرد کتنے بچے ہیں جنہیں ہم پب جی گیم میں مصروف دیکھتے ہیں اور ہم میں کتنے ہیں جو انہیں اس سے سختی سے اور حکمت سے اس گیم سے منع کرنے میں کامیاب ہیں؟ ہمیں ادراک ہی نہیں کہ ہمارا مستقبل کس جانب جارہا ہے۔
نوجوان نسل کے لیے صحت مند سرگرمیاں پیدا کرنا ہم سب کا فرض ہے، ہماری حکومت اس کی ذمے داری قبول کرے، ہمارے تعلیمی ادارے اور تعلیمی نصاب ہمارا تعلیمی ماحول، یہ سب محض فیس لینے کی مشین بنے ہوئے ہیں اور تنگ و تاریک کمروں میں کلاس روم ہیں اور ایک پلازے کی عمارت میں تعلیمی ادارہ ہے انہیں کسی نہ کسی نے تو اس ماحول میں کام کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے؟ کہتے ہیں کہ تعلیم صوبائی معاملہ ہے، آئین کہتا ہے کہ تعلیم دینا ریاست کی ذمے داری ہے۔ صحت مند تعلیمی ماحول فراہم کس کی ذمے داری ہے؟ الیکشن کمیشن میں سیکڑوں سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں، ان میں درجنوں ایسی ہیں جو کسی نہ کسی صورت کم یا زیادہ ارکان کے ساتھ پارلیمنٹ کا حصہ ہیں، کبھی کسی نے یہ نکتہ اٹھایا کہ ملک کی نوجوان نسل پب جی گیم کے ذریعے کس طرح تعمیری مقصد سے دور ہو رہی ہے، یا دور کی جارہی ہے۔ نجی تعلیمی ادارے چلانے والے کون ہیں؟ اور یہاں مناسب تعلیمی ماحول فراہم کیے بغیر بھاری فیس لینے والے قابل احتساب کیوں نہیں ہیں؟ کاغذوں میں لکھا ہوا ہے کہ کسی بھی نجی تعلیمی ادارہ چلانے کی اجازت صرف اس وقت ہی مل سکتی کہ جب فلاں فلاں شق اور شرط پوری کی جائے مگر عملی طور پر یہ ہو رہا ہے کہ ہر شرط پوری کرنے کے بدلے ایک فیس ہے جو سرکار کی نہیں، بلکہ سرکاری بندے کی جیب میں چلی جاتی ہے اور بدلے میں تعلیمی ادارہ اپنا کام شروع کردیتا ہے۔
بھاری بیگ طلبہ کی قسمت میں اور بھاری فیس والدین کی قسمت میں لکھی جاچکی ہے، یہ ہے ہمارا نظام تعلیم، بھاری بیگ اٹھائے ہوئے بچوں کی صحت دیکھ لیں، بیگ کا وزن بچے سے زیادہ ہوگا، پارلیمنٹ میں جو کچھ بھی ہورہا ہے اور سیاسی جماعتیں جو بھی کر رہی ہیں، آج کی نوجوان نسل اس سے بیگانہ ہے، اسے صرف ڈگری چاہیے، اور ہر نجی تعلیمی ادارہ فیس کے بدلے ڈگری دینے کو تیار ہے، تعلیم کہیں نہیں مل رہی… مگر تعلیمی ادارے دھڑا دھڑ کھل رہے ہیں۔ اقبالؒ کہتے ہیں کہ
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی، اولاد بھی، جاگیر بھی فتنہ
نا حق کے لیے اُٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا، نعرۂ تکبیر بھی فتنہ