امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار سے باہر کردیے گئے ہیں۔ انہوں نے عدالت جانے کا بھی اعلان کردیا ہے۔ ابھی تو نتائج کا اعلان نہیں ہوا ہے لیکن امریکی آر ٹی ایس بھی ایڈوانس ہے۔ اس کے اعداد وشمار کے ذریعے فیصلہ سامنے آگیا ہے۔ دوسری طرف صدر ٹرمپ کا غصہ بڑھتا جارہا ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک ٹرمپ کی کیفیت کو بالکل نہیں سمجھ پارہے ہوں گے کیوں کہ دھاندلی، انتخابی نتائج میں تبدیلی، نہیں مانوں گا، سڑکوں پر آئوں گا، عدالت جائوں گا، وغیرہ جیسے جملوں سے ناآشنا ہیں۔ لیکن پاکستانی قوم تو نتائج میں گھپلوں، دھاندلی، میں نہ مانوں وغیرہ سے اچھی طرح واقف ہے۔ اب انتظار ہے۔ کس چیز کا اس بارے میں بھی پاکستانی قوم خوب جانتی ہے۔ سب سے پہلے تو امریکا میں یہ نعرہ گونج رہا ہے اور اس کی گونج میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘۔ جوں جوں وقت گزرے گا اس نعرے کی گونج بڑھ جائے گی۔ اور نئے نعرے اور واقعات ہوں گے جو ہمارے لیے نئے نہیں امریکیوں کے لیے نئے ہوں گے۔ مثال کے طور پر ٹرمپ بار بار فوج اور جرنیلوں کو نشانہ بنا چکے ہیں اب ان کو غدار اور چین و روس کا بیانیہ بلکہ طالبان اور داعش کا بیانیہ اختیار کرنے کا الزام ملنے والا ہے۔ بائیڈن اور ان کے ساتھی کہیں گے کہ ٹرمپ طالبان اور داعش کا بیانیہ بول رہے ہیں۔ اس جیسا غدار دنیا میں نہیں ملے گا۔ ٹرمپ کی مشکل یہ ہے کہ اسے پاکستان میں تو پناہ نہیں مل سکتی کیوں کہ ہمارے حکمران تو اپنی قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکیوں کے حوالے کردیتے ہیں اور اسے واپس ہی نہیں آنے دے رہے۔ وہ بڑی آسانی سے دو افراد کو دن دہاڑے بھری ہوئی سڑک پر قتل کرنے والے امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کو امریکا کے حوالے کردیتے ہیں۔ ایمل کاسی رمزی یوسف کو اٹھا کر دے دیتے ہیں۔ ہزاروں طالبان بشمول افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف سب کو امریکا کے حوالے کیا ان حالات میں تو ٹرمپ کو پاکستان میں پناہ نہیں ملے گی۔ اسے بھی لندن نے جانا ہوگا۔ لندن ساری دنیا کے غدار قرار دیے گئے لوگوں کی جائے پناہ ہے۔ ٹرمپ کو جلد فیصلہ کرنا ہوگا۔ نیویارک یا لندن… کیوں کہ یہ خبر بھی آگئی ہے کہ سنگین مقدمات ٹرمپ کے منتظر ہیں۔
پاکستانی قوم تو اس بات کی بھی منتظر ہے کہ ٹرمپ کے بعد میلانیا کا بیانیہ کیا ہوگا۔ اسے لندن جا کر مرنا ہے یا ٹرمپ پر ہی مسلط رہنا ہے۔ دھمکی تو دے دی ہے الگ ہونے کی اب ٹرمپ میں رکھا کیا ہے۔ اصل مسئلہ تو ٹرمپ کے یہودی داماد کا ہے۔ میلانیا تو اب ٹرمپ کے لیے خاتون اول سے خاتون آخر بن چکی ہے۔ لیکن ٹرمپ کے داماد کے بارے میں لوگ منتظر ہیں کہ وہ کب آئزن ہاور، ٹرومین، جارج واشنگٹن کے مزاروں پر جا کر ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگاتے ہیں۔ پھر ان کو غدار قرار دینا بائیڈن اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے بس میں بھی ہوگا کہ نہیں۔ کیوں کہ وہ ٹرمپ کے داماد ہی نہیں ایک یہودی بھی ہیں اور بہت اہم یہودی ہیں۔ جہاں تک ان کے ہوٹل یا گھر پر چھاپا مارنے کا تعلق ہے اس بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ دروازہ توڑ کر اس وقت اندر گھسنا جب میاں بیوی دونوں کمرے میں ہوں، چادر اور چہاردیواری کے تقدس کی پامالی قرار پائے گی یا معمول کی کارروائی سمجھی جائے گی۔ کیوں کہ امریکا میں یہ کام غلط ہے لیکن بہت زیادہ معیوب نہیں ہے۔ اور داماد صاحب پر غداری کا مقدمہ بنے گا یا نہیں۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی کیفیت کو پاکستانی خوب سمجھ رہے ہیں۔ وہ یہ کیفیت میاں نواز شریف کو دیکھ کر اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ اصل کیفیت اور ردعمل تو اس وقت دیکھنا ہوگا جب پاکستانی ٹرمپ اقتدار سے باہر ہوں گے اور ان کی خاتون سوم جو آج کل خاتون اول ہیں ان کے ساتھ خاتون آخر بھی ہوں گی۔ لیکن ان کو اس وقت احساس محرومی ہوگا وہ صرف یہ نعرہ لگا سکیں گے کہ مجھے کیوں نکالا۔ لیکن ان کے پاس داماد نہیں۔ جو بن سکتا تھا اسے وہ تسلیم نہیں کرتے۔ تو چھاپا کہاں مارا جائے گا۔ امریکی ٹرمپ سے پاکستانی ٹرمپ کی طرف بات گھوم گئی ایک اور مسئلہ ہوگا وہ کراچی بہت مشکل سے آتے ہیں جب کہ ان کو ہر طرح کی سیکورٹی ملی ہوئی ہے۔ جب اقتدار میں نہیں ہوں گے اور صرف چند ٹائیگرز ان کے ساتھ ہوں گے تو وہ مزار قائد پر حاضری دے کر ووٹ کو عزت دینے کا مطالبہ کیسے کریں گے۔
ویسے ووٹ کو عزت دینے کا معاملہ اب امریکا تک پہنچ گیا ہے اور جلد پورے امریکا میں پھیلنے والا ہے۔ اس کا مسئلہ کیا ہے، ووٹ کو دنیا بھر میں عزت کیوں نہیں دی جارہی ہے۔ امریکا جیسے ملک میں اب یہ نعرے لگ رہے ہیں کہ ووٹ چوری کیے گئے، دعویٰ درست ہو یا غلط لیکن یہ مسئلہ امریکا میں آچکا ہے۔ پاکستانی قوم کو دراصل اس مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔ جو لوگ ووٹ کے وقار کو مجروح کرتے ہیں انہیں اپنے وقار کی بہت فکر ہوتی ہے۔ ان کا وقات بہت اہم ہے اس کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچنی چاہیے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ووٹ کا وقار اس سے بھی زیادہ بلند ہے۔ اگر ووٹ کے وقار کو پامال کیا جائے گا تو کسی کا وقار کیسے بلند رہ سکتا ہے۔ آوازیں بھی اُٹھیں گی اور سوال بھی۔ میاں نواز شریف کے 2018ء کے انتخاب کے بعد یہ نعرہ لگایا تھا۔ لیکن وہ اور پی ڈی ایم بھی جانتے ہیں کہ نواز شریف اور پی پی پی جب بھی اقتدار میں آئے ووٹ کو بے عزت کرکے ہی آئے۔ ووٹ کو عزت نہیں دی گئی تھی۔ عمران خان کے لیے ووٹ کو زیادہ بے عزت کردیا گیا۔ بس اس حساب سے اگر ووٹ کو عزت دینے کی بات تھی تو مشرق پاکستان کے ووٹروں کے ووٹ کو عزت کیوں نہ دی گئی، ملک کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ یہ بنیادی غلطی تھی۔ اب اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا غدار قرار دے دیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد سے پاکستان میں ووٹ کو کبھی عزت نہیں دی گئی۔ حکمران طبقے کی سوچ کا اندازہ مسلم لیگ کی نئی رہنما مریم نواز کے اس جملے سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ سیاست اور حکومت کو کیا سمجھتے ہیں۔ دو روز قبل استور میں جلسے سے خطاب کے دوران مریم نواز نے کہا کہ ہم عزت حاصل کرنے کے لیے سیاست میں آتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سیاست میں آکر عزت ملتی ہے حکومت میں آکر وقار ملتا ہے۔ ایسی ہی سوچ دوسروں کی بھی ہے۔ ان کے ذہنوں میں بھی یہ نہیں کہ سیاست اور حکومت میں آنے کا مقصد خدمت ہے۔ جب حکمرانوں کے ذہنوں میں یہ ہوگا کہ سیاست میں عزت کے لیے آتے ہیں تو وہ یہی کہیں گے کہ ہم عزت کرانا جانتے ہیں اور پھر جو طاقتیں انہیں اقتدار میں لا کر عزت دلاتی ہیں تو وہ اپنے وقار پر سمجھوتا کیسے کرلیں گی۔ اس گھن چکر کا علاج شفاف انتخابات ہی ہیں۔