اسلام میں سلام کی کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ اسی سے کیجیے کہ آنے والا اگر سلام و اجازت کے بغیر آنا چاہے، یا سلام سے پہلے کسی طرح کی گفتگو کرے اور اپنی ضرورت رکھے تو نبی پاکؐ نے اجازت دی کہ ایسے آدمی کو آنے نہ دیا جائے اور نہ ہی اس کے کسی مطالبے کو پورا کیا جائے۔
خود نبی پاکؐ سلام میں پہل کیا کرتے تھے اور آپؐ کی تعلیمات کا یہ نتیجہ تھا کہ صحابہ صرف اس نیت سے بازار جاتے تھے تاکہ وہاں لوگوں کو سلام کر کے ثواب حاصل کرلیں۔
افسوس یہ ہے کہ آج مسلمانوں نے سلام کے تعلق سے ان تعلیمات کو کلیۃً فراموش کر دیا ہے، اسلامی معاشرے میں سلام کا رواج اب بہت کم ہوگیا ہے۔
سلام کو ترک کرنے کی نحوست یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر بغض و حسد، انتشار، دشمنی و عداوت جیسی بیماریاں عام ہوگئی ہیں اور سلام کی جگہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے غیر اسلامی، مشرکانہ سلاموں کو اختیار کر لیا ہے۔
کاش کہ مسلمان سلام کی روح و حقیقت کو سمجھ کر اس کو اپنے درمیان عام کریں، اس کو پھیلائیں اور رواج دیں۔ اس کی ایسی کثرت ہوکہ اسلامی دنیا کی فضا اس کی لہروں سے معمور رہے، تو پوری قوم کی اصلاح ہو جائے، اس کے اوپر اللہ کی رحمتوں و نعمتوں کی بارش ہوگی، پھر اخلاف و انتشار کو ختم کرنے کے لیے کسی جلسے و تحریک چلانے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔
اب اختصار کے ساتھ سلام کے تعلق سے کچھ اہم باتوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے:
1۔ سلام میں پہل کرنا سنت ہے، اور سلام کا جواب دینا واجب ہے۔ نبی پاکؐ نے حقوق المسلمین کے تعلق سے جن باتوں کا حکم فرمایا ان میں سے ایک سلام کا جواب بھی ہے، ایک حدیث میں نبی پاکؐ نے سلام کا جواب نہ دینے والے کو اپنے طریقے سے نکلا ہوا قرار دیا۔ ایک جگہ فرمایا: اگر سلام کرنے والے کو جواب نہ دیا جائے تو پھر فرشتے جواب دیتے ہیں، تو کوشش یہی ہو کہ سلام میں پہل و ابتدا ہو، کسی کا انتظار نہ کیا جائے۔
شریعت نے جو یہ اصول مقرر کیا ہے کہ چھوٹا بڑے کو، قلیل جماعت کثیر کو، سوار پیدل کو، پیدل بیٹھے ہوئے کو سلام کرے تو اس کی حیثیت ایک قانونی حد بندی کی ہے، اور یہ حکم واجبی درجے کا نہیں ہے بلکہ یہ صرف استحباب کا درجہ رکھتا ہے۔ سلام کے سلسلے میں شریعت کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے جو بھی سلام میں پہل کرے وہی قیامت میں اللہ کے قریب ہوگا، اور ایسے انسان کو نبی پاکؐ نے کبر و غرورسے پاک قرار دیا ہے۔
2۔ سلام تلفظ کی صحیح ادائیگی کے ساتھ ہو، سلام کرتے ہوئے ’برکاتہ‘ تک پورا فقرہ ادا کیا جائے، نبی پاکؐ نے ’’السلام علیکم‘‘ کہنے والے کو دس نیکیوں کا، اور ’’رحمۃ اللہ‘‘ کا اضافہ کرنے والے کو بیس کا، اور ’’برکاتہ‘‘ تک اضافہ کرنے والے کو تیس نیکیوں کا مستحق قرار دیا ہے۔
3۔ سلام اپنے اندر محبت و مودت، توقیر و تعظیم کا پہلو لیے ہوئے ہے اور کسی بھی مومن کی دلی مودّت کا مستحق مومن کامل ہی ہوسکتا ہے، اس لیے کفار و مشرکین و منافقین کو سلام کرنے سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ ان کے اور ایک مومن کے مقاصد زندگی میں بڑا ہی فرق ہے، اسی طرح جو مسلمان بدعت، فسق و فجور میں مبتلا ہو اس کو بھی اس وقت تک سلام میں پہل نہ کی جائے اور نہ ہی جواب دیا جائے جب تک کہ پختہ توبہ نہ کرلے۔ کعب ابن مالک اور زینب بنت جحشؓ کے ساتھ نبی پاکؐ نے یہی رویہ اختیار کیا تھا۔
4۔شریعت میں جتنی اہمیت ملاقات کے وقت سلام کی ہے اتنی ہی اہمیت و فضیلت واپسی کے سلام کی بھی ہے، ہم سے عموماً اس بارے میں کوتاہی ہوتی ہے، مجلس میں آتے و ملاقات کے وقت تو سلام کر لیا جاتا ہے اور واپس ہوتے وقت بغیر سلام کے واپسی کو غنیمت سمجھا جاتا ہے، حالانکہ رخصت ہوتے وقت سلام نہ کرنے سے یہ بدگمانی ہو سکتی ہے کہ یہ ناراضگی کے ساتھ رخصت ہوا ہے، اور اب کبھی اس مجلس میں نہ آئے گا۔
وداعی سلام کے اہتمام میں اس بات کا پوشیدہ اعلان ہے کہ میں کسی ناراضگی کی وجہ سے نہیں بلکہ دلی خوشی کے ساتھ ضرورت کے تحت واپس ہو رہا ہوں، اور آئندہ بھی اس طرح کی مجلسوں اور آپ کی قیمتی صحبتوں کے حصول کا متمنی ہوں۔