برطانوی نشریاتی کی رپورٹ کے مطابق کورونا کی ایک ایسی ویکسین تیار کر لی گئی جس کے ابتدائی تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ یہ نوے فی صد لوگوں کو کورونا سے بچا سکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی ادویات ساز کمپنیوں فائزر اور باوٹیک نے یہ ویکسین مشترکہ طور پر تیار کی ہے۔ ویکسین کو تجرباتی بنیادو ں پر چھ ملکوں میں 43500 افراد کو لگایا گیا۔ اس کے بارے میں ابھی تک کوئی خدشہ یا شکایت سامنے نہیں آئی۔ ادویات ساز کمپنیوں کا ارادہ ہے کہ وہ اس کی منظوری حاصل کرکے اس ماہ کے اواخر تک ویکسین کی تیار ی شروع کرنا چاہتے ہیں تاکہ دنیا کو جلد از جلد پابندیوں سے نجات مل سکے۔ کورونا کی ویکسین کی تیاری کی خوش خبری ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کورونا کی لہر بے قابو ہو چکی ہے اور ایک بار لہر کمزور ہونے کے بعد دوبارہ عروج کی طرف بڑھ رہی ہے۔ کورونا وائرس کو ظہور پزیر ہوئے ایک سال کا عرصہ ہوچکا ہے۔ نومبر کا یہی مہینہ تھا جب چین کے شہر ووہان میں ایک پراسرار بیماری کے پھوٹ پڑنے کی خبر دنیا میں بے تاثر پھیل گئی تھی کیونکہ لوگوں کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ آنے والے ماہ وسال میں کورونا کی یہ وبا زمان ومکاں کی پابندیوں کو روند کر ایک عالمی وبا کی شکل اختیار کر لے گی۔ ووہان میں وائرس کے ظہور نے چین کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس کا عالمی امیج، معیشت اور سیاحت سب کچھ دائو پر لگ گئے تھے اور مغرب میں چین مخالف پروپیگنڈہ کو فروغ ملا تھا۔ چند ماہ بعد ہی ووہان سے یہ وبا چین کے دوسرے شہروں اور پھر ملکوں تک پھیلتی چلی گئی۔ پاکستان چین کے قریب ہونے کی وجہ سے اس کی زد میں تو آیا مگر اس کی وجہ چین کی قربت نہیں بلکہ دوسرے ہمسایہ ملکوں اور یورپ سے آنے والے افراد تھے۔ چین کے بعد اٹلی، ایران اور کئی دوسرے ممالک کورونا کی بدترین لہر کی زد کا شکار ہوئے۔
یورپ کے عشرت کدے ویران ہوگئے۔ سیاحتی مراکز میں اُداسی بال کھولے روتی رہی، تجارتی مراکز کو تالے لگ گئے اور انسان گھروں میں مقید اور محصور ہو کر رہ گئے۔ چین نے عزم وہمت کے ساتھ اس وبا پر قابو پایا اور مارچ میں پاکستان لاک ڈائون کا آغاز کرکے کورونا کے مقابلے کی تدابیر اپنائی جانے لگیں۔ یہ پورا سال کورونا سے بچائو کی تدابیر میں گزرگیا۔ اب موسم کی کروٹ بدلتے ہی کورونا کی وبا نے دوبارہ سر اُٹھا لیا ہے۔ اس کے ساتھ ویکسین کی تیاری کی خوش خبری بھی سامنے آرہی ہے۔ اس خوش خبری کی حقیقت کیا ہے؟ ابھی یہ بات سامنے آنا باقی ہیں۔ ادویات ساز کمپنیوں کے دعوے کو عمل کی کسوٹی پر پرکھا جانا ابھی باقی ہے۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو پھر اسے ایک موذی وبا کے خلاف انسانیت کی ایک فتح اور کامیابی کی منزل قریب آچکی ہے۔ ایک قاتل وبا کے خاتمے اور اس وبا کے نتیجے میں انسانیت کے کلچر اور برتائو پر لگی پابندیوں کے اختتام کا وقت قریب آچکا ہے مگر ہنوز یہ دعویٰ عمل کی میزان پر تُلنا باقی ہے۔ ویکسین کی تیاری کا دعویٰ اگر درست بھی ہے تو ابھی اس کو عملی شکل میں جانچنے میں کئی مراحل اور خاصا وقت حائل ہے۔ اس لیے عوام اور حکومتوں کو ویکسین کی خوشی میں احتیاطی تدابیر سے دامن نہیں چھڑانا چاہیے۔ ویکسین ابھی ایک افسانہ ہے مگر کورونا ایک حقیقت بن کر لوگوں کو رُلارہا ہے۔
ویکسین کے کامیاب تجربات تک بنی نوع انسان اس وبا سے غفلت کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ لمحہ موجود کی حقیقت یہ ہے کہ کورونا کی دوسری لہر حسب توقع پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ چل پڑی ہے۔ ملک میں ایک سے دوسرے کونے تک کورونا کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں ملک بھر میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد پچیس رہی ہے۔ جس کے بعد ملک میں کورونا سے وفات پاجانے والوں کی مجموعی تعداد چھ ہزار نو سو اڑسٹھ ہو گئی ہے۔ نیشنل کمانڈر اینڈر آپریشن سینٹر کی طرف سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق مزید ایک ہزار چار سو چھتیس کیس سامنے آئے ہیں۔ جس کے باعث متاثرہ افراد کی تعداد تین لاکھ تینتالیس ہزار ایک سو اناسی ہو گئی ہے۔ ملک میں کورونا کی نئی لہر میں تیزی کے باعث حکومت نے بیس نومبر سے نئے ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کے تحت شادی ہالوں کو اب نئے ضوابط کا پابند بنا یا جا رہا ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں اسمارٹ لاک ڈائون میں کا سلسلہ بھی تیز ہو گیا ہے۔ شادی ہالوں کو کورونا کے پھیلائو کی ایک بڑی وجہ قرار دیاجا رہا ہے مگر شادی ہال میں ہونے والے بے احتیاطی ہی کورونا پھیلائو کی واحد وجہ نہیں بلکہ اس کی وجوہات میں بازاروں، تعلیمی اداروں، اسپتالوں اور پبلک مقامات پر عوام کا رش بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت اسمارٹ لاک ڈائون اور مکمل لاک ڈائون کی تعبیر وتشریح میں اُلجھ کر رہی گئی ہے۔ اسمارٹ لاک ڈائون نام کا کوئی نسخہ ٔ شفا اس وقت کار گر نہیں۔ عوام کو معمولات زندگی سے باز رکھنے اور احتیاط کی طرف لوٹانے کے لیے ایک مکمل لاک ڈائون ناگزیر ہے۔ ایک ایسا لاک ڈائون جسے مرحلہ وار نرم کرکے عوام کو احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے پر مجبور کیا جائے۔
برطانیہ جیسے ممالک ایک بار پھر مکمل لاک ڈائون کی طرف جاچکے ہیں۔ معاشی ضرورتیں اور تقاضے اپنی جگہ مگر انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں۔ انسان ہوں گے تو ان کی معاشی بہتری کی تدابیر بھی کار گر ہوں گی۔ ایک طرف ملک میں کورونا کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں دوسری طرف سیاسی جماعتیں جلسے جلوس کرکے اپنا زور باز و دکھا رہی ہیں۔ پی ڈی ایم کے جلسوں میں ایس اوپیز کا کسی بھی سطح خیال نہیں رکھا گیا۔ اپوزیشن تو اپنے وجود کا احساس دلانے کے لیے سڑکوں کا رخ کیے ہوئے تھی اب حکومت بھی بڑے بڑے جلسوں کے ذریعے ایس او پیز کی دھجیاں بکھیرنے میں شریک ہو گئی ہے۔ ایک عام آدمی اس صورت حال کو دیکھ کر ابہام کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر حکومت خطرے کا احساس نہیں کرے گی تو عام آدمی کے دل سے بھی وبا کا خوف ختم ہوجاتا ہے۔ حکومت کو اوروں کو نصیحت خود میاں فضیحت والا رویہ ترک کرکے سب سے پہلے خود ایس اوپیز پر عمل کرنا چاہیے۔