انسان ایک اخلاقی وجود ہے۔ اخلاق، فطرت اور شریعت کی ہم آہنگی سے وجود میں آتے ہیں۔ انسان چونکہ اخلاقی وجود ہے، اسی لیے خیر وشر کی کشاکش کے ماحول میں اتارا گیا ہے اور اپنے اعمال پر جواب دہ ہے۔ عملِ صالح، انسان کے اخلاقی وجود ہونے کی سند ہے اور ایمان یہ بتاتا ہے کہ ہم ایک عقلی وجود بھی ہیں۔ اخلاق کی وہی تین بنیادیں ہیں جو شخصیت کی ہیں، یعنی ذہن، طبیعت اور ارادہ۔ تاہم اخلاق کا اصل مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم کسی دوسرے کی مراد پر ڈھلنے کی کوشش کریں۔ یہ وہ دوسرا ہے جو ہمارا حاکم ہے، خالق ہے، معبود ہے اور جس کے ہاتھ میں ہمارا وہ حساب کتاب بھی ہے جس کے نتیجے میں ہمیں ابدی راحت یا تکلیف نصیب ہوگی۔ اس پہلو سے اخلاق کا یہ مطلب بھی ہے کہ کسی مسلمہ ہستی کی مراد، مرضی اور حکم کے تابع رہنا۔ اسی سے اخلاقی وجود عمل میں آتا ہے۔ اگر کوئی اتھارٹی موجود نہ ہو تو اخلاقی وجود میں بیداری کا حال پیدا نہیں ہوسکتا۔ یہ اصولی بات ہے۔ اخلاق کے لیے اللہ کا ہونا ایک لازمی شرط ہے۔ جو شخص اپنے حاکم، اپنے مالک، اپنے ربّ، اپنے معبود کو نہیں پہچانتا، اور اسے پہچان کر بندگی کی مستقل پوزیشن نہیں لیتا تو اس شخص کا اخلاقی وجود خلا میں ہے اور اس کے اعمال، خیر سے ظاہری مشابہت رکھنے کے باوجود خیر کی اصل سے کوئی نسبت نہیں رکھتے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض چیزوں کی صورت تو اچھی ہوتی ہے لیکن وہ اچھائی کی روح سے خالی ہوتی ہیں۔ تو اخلاقی وجود کی پہچان اور تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ اخلاق کی بنیاد اور اخلاقی حسنات کی حقیقت اور ان کا مقصودِ اصلی ایمان سے متعین ہو اور بندگی کے مادے سے وجود میں آئے۔ اخلاق کا محض انسانی ہونا کافی نہیں تاوقتیکہ بندگی کی اصل پر استوار ہونا ثابت نہ ہوجائے۔ بندگی انسانیت پر مقدم ہے۔ انسان کے اندر جو چیز بندگی کی اصل سے نہیں پھوٹی، جو اچھی بات بھی عبدیت کی اساس پراستوار اور بندگی کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے نہیں ہے، وہ خلا میں بننے والی صورت ہے جو بس دیکھنے میں اچھی لگ سکتی ہے، اس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے۔ یہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے اپنے احکام پر اور اپنی واضح مرضیات پر منحصر کر کے ہمیں اپنی آخرت یعنی اپنے وجود کی ابدی جہت کو بہتر بنانے اور اپنی خواہش کے مطابق رکھنے کا موقع عنایت فرمایا۔
اخلاق کا منبع تو ایک ہی ہے، یعنی نفس، تاہم اس کی کچھ قسمیں بھی ہیں۔ بعض کا تعلق ارادے سے ہے، کچھ کا طبیعت سے اور چند کا ذہن سے۔ ایک تو وہ اخلاق ہیں جن کی صورت عملی ہے اور جن کی نسبت ارادے سے ہے، یعنی وہ وصف جو اپنی حتمی صورت میں عمل کی طرح ہو، اُس کا تعلق ارادے سے ہوتا ہے۔ اسی طرح جو وصف خیال کی طرح ہو اُس کا تعلق ذہن سے ہوتا ہے، اور جو وصف رغبت اور کراہت کے پہلو رکھتا ہو اُس کا تعلق طبیعت سے ہوتا ہے۔ ویسے تو اخلاق کی تمام قسمیں عمل میں بھی ڈھلتی ہیں اور کسی نہ کسی زاویے سے ذہنی اور طبعی بھی ہوتی ہیں، تاہم اس وقت اخلاق کی قدرے مفصل تفہیم کے لیے ان کی اقسام بندی کی ہے جو ظاہر ہے کہ کلی اور حتمی نہیں ہے۔ اخلاق کا وہ حصہ جو ارادی اور عملی ہے اُس کی بنیاد دو اوصاف پر ہے جن کا تعلق ذہن، طبیعت اور ارادے تینوں سے ہے۔ اگر یہ دو اوصاف مستحکم ہو جائیں تو پھر ارادی اور عملی اخلاق میں سہولت اور استقامت بھی پیدا ہو جاتی ہے اور اُن کا معیار بھی بلند ہو جاتاہے۔ وہ دو اوصاف ہیں: سچائی اور صبر۔ یہاں سچائی کا مطلب ہے عملی سچائی، یعنی سچ بولنا۔ یہ دونوں اوصاف اگر ہمارا محاورہ بن جائیں، ہماری عادت بن جائیں تو باقی اخلاقی اعمال بھی آسان ہو جاتے ہیں اور انہیں بے تکلفی سے نبھانا بھی سہل ہوجاتاہے۔ کیونکہ اخلاقی حسنات اگر ارادے سے ایک موجبِ عمل تعلق نہ رکھیں تو اخلاق کی ذہنی اور طبعی نسبتیں بے کار ہیں۔ یعنی کہ جب تک اخلاق عمل نہیں پیدا کرے گا، اس وقت تک وہ محض تصور یا صرف جذبے کی حیثیت سے بے تاثیر اور بے مصرف ہے۔ ارادے کی اہمیت یہ ہے کہ ذہن کے مسلمات اور طبیعت کے مرغوبات کو عمل میں لا کر دکھا دیتا ہے تاکہ شخصیت میں تضاد اور دوہرا پن نہ پیدا ہو۔ وہ آدمی دوہری شخصیت کا مریض ہے جس کی مانی ہوئی بات عمل میں نہ ڈھلے۔ اگر اخلاق عمل کی صورت اختیار نہیں کرتا اور محض دل میں کچھ جذبات اور ذہن میں کچھ تصورات کی صورت میں موجود ہے تو ناقابلِ اعتبار ہے۔ میرے اخلاقی تصورات اور جذبات دراصل بندگی کو صادق اور کامل بنانے کے لیے ہیں۔ اور بندگی کے لفظ ہی سے ظاہر ہے کہ اس میں ارادے کا کردار مرکزی ہے اور یہ قلب و ذہن کی تسلیم سے شروع ہوتی ہے اور تعمیل پر مکمل ہوتی ہے۔
سچائی اپنے دوام کے لیے صبر سے مشروط ہے۔
اب حسبِ معمول کچھ احادیثِ مبارکہ کا مطالعہ کر لیتے ہیں۔
سیدنا ابوہریرہؓ راوی ہیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میں اپنے بندۂ مومن کی کوئی دنیاوی مرغوب چیز لے لوں اور وہ اس پر صبر کرے تو اس کے لیے میرے پاس جنت کے سوا کوئی اور بدلہ نہیں ہے۔ (بخاری)
سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میری آنکھوں میں وہ منظر گھوم رہا ہے کہ رسول اللہؐ انبیائِ کرامؑ میں سے کسی نبی کا تذکرہ فرماتے ہوئے فرما رہے تھے: ان کی قوم نے ان کو مارا اور لہو لہان کر دیا اور وہ اپنے چہرے سے خون پونچھتے جاتے ہیں اور یہ فرما رہے ہیں: اے اللہ! میری قوم کو معاف فرما دے کیونکہ یہ نا واقف ہیں، جانتے نہیں ہیں۔ (متفق علیہ)
سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ رسول اللہ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: سچ بھلائی اور نیکوکاری کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی اور بھلائی جنت کی راہ پر لے جاتی ہے، اور آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کو صدیق لکھ لیا جاتا ہے۔ (متفق علیہ)
صابر آدمی دراصل وفادار آدمی ہوتا ہے۔ صبر، وفاداری ہے خصوصاً حالت ِ تکلیف میں۔ تکلیف اور وفاداری میں لازمی تعلق ہے۔ میں خود کو وفادار بندہ سمجھتا ہوں مگر مجھے اپنی وفاداری کا یقین مشقت اور تکلیف سے گزر کر ہی میسر آئے گا۔ اللہ کے ساتھ میرا تعلق آزمائش اور مصیبت میں بھی اپنی مخصوص اور معیاری کیفیات کے ساتھ برقرار رہتا ہے تو پھر میں صابر ہوں، یعنی اللہ کا وفادار بندہ ہوں۔ اسی لیے صبر میں ایک چھپا ہوا تشکر بھی ہوتا ہے۔ صابر آدمی صبر اور شکر کے درمیان موجود لغوی فرق کو اپنے احوال میں باقی نہیں رہنے دیتا اور عین حالت ِ صبر میں شکرگزاری کی کیفیت بھی محسوس کرتا ہے۔
اللہ سے تعلق کے دو تقاضے ہیں: راحت میں شکر گزاری اور تکلیف میں صبر۔ راحت میں شکرگزاری تو صبر کی کیفیت سے الگ ہوسکتی ہے لیکن صبر کی حالت میں جو شخص شکرگزاری کے جذبے یا مخصوص کیفیات کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہے اس نے گویا صبر کو اس کی روح کے ساتھ اپنے اندر جذب کر لیا۔ جن موقعوں پر آدمی بندگی کے موقف پر عملاً اور حالاً کمزور پڑ سکتا ہے، اُن میں اگر کوئی آدمی شکر کے حال کی حفاظت کر سکے تو اصل میں صابر یہ ہے۔ یعنی صبر اپنی نفسیاتی اور قلبی ساخت میں شکر سے ایک گہری مناسبت رکھتا ہے۔ اس سطح کا صبر کمالِ بندگی ہے اور مقصودِ بندگی ہے کیونکہ اللہ سے کوئی تعلق تشکر کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ صبر بھی تعلق باللہ ہی ہے، یہ بھی شکرگزاری سے خالی نہیں ہوتا۔ تو صبر ایک ایسا وصف ہے جس کو حاصل کیے بغیر خود کو اللہ کا بندہ سمجھنا بے معنی ہے۔ ایسے بنیادی وصف کو اس کی حالت ِ کمال میں کی گئی تعریف کے ساتھ ذہن میں رکھنا اس اعتبار سے بھی بہت مفید ہے کہ اگر ہم کامل معنی کو اپنا مقصود بنائیں گے تو ان شاء اللہ اس کے قریب قریب لے جانی والی جد وجہد ضرور کریں گے۔
اور اس کو حاصل کرنے کے لیے کچھ ایسی چیزیں اپنے اندر ضرور پیدا کر لیں گے جو چاہے ہمیں اس کامل معنی کا پورا حامل نہ بنائیں لیکن اس سے سچی نسبت رکھنے والا بندہ ضرور بنا دیں گی۔ چیزوں کو ان کے آئڈیل دروبست کے ساتھ محفوظ نہ رکھنے سے ان چیزوں کی ناقدری ہوتی ہے، اور اگر چیزوں کی مثالی تعریف سامنے ہو تو ان کے حصول کی سنجیدہ کوشش کرنے والا اپنے حاصلات پر گھمنڈ نہیں کرتا۔ یہ آئڈیل اسے باور کرواتا رہتا ہے کہ تم راستے پر تو ہو لیکن منزل سے ابھی دور ہو۔ تو بھائی، صبر کی مثالی تعریف یہ ہے کہ جو از روئے حال منافیِ شکر نہ ہو۔ اس کے لیے نفس میں بندگی کے داعیے کا غلبہ ضروری ہے۔ یعنی نفس میں بندگی کی حالت غالب آئے گی تو تعلق مع اللہ سے نسبت رکھنے والے احوال نصیب ہوں گے۔ آدمی بندگی کی قوت سے نفس پر گرفت رکھنے کی یہ توفیق اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ سچ پر مضبوطی کے ساتھ قائم نہ ہو جائے۔ سچ کا اصل کردار تو یہ ہے کہ ماسوی اللہ سے مغلوب نہیں ہونے دیتا اور اللہ کی طرف یکسو رکھتا ہے۔ لیکن ہم اگر سچ کا مطلب صرف سچ بولنا رکھیں تو بھی اس عمل پر استقامت سے نفس پر اصلاحی قدرت حاصل ہوسکتی ہے۔ تو سب سے پہلے یہ عزم کر لینا چاہیے کہ میری زبان کو مرتے دم تک جھوٹ کے ذائقے سے محفوظ رہنا ہے اور میرے دل کو دروغ گوئی کے ارادے سے بھی پاک رہنا ہے۔ سچ بولنے کی عادت کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ ہمارا بولا ہوا ایک ایک لفظ ہماری تعمیر میں حصہ لیتا ہے۔ سچ اگر تکلف سے اور خود پر جبر کر کے بھی بولا جائے تو بھی اس کی تاثیر سے نفس کی امّارگی، دنیا کی محبت اور ریا کے خاتمے کی راہ کھل جاتی ہے۔ سچ بولنا ایک طرح سے اللہ کی حضوری میں رکھنے والا فعل ہے۔ سچ کا صبر سے تعلق یہ ہے کہ صبر اللہ سے تعلق میں سچا بناتا ہے، اور اللہ کے حکم کی تعمیل میں ثابت قدم رکھتا ہے۔ یعنی صبر کہتا ہے کہ دنیا چاہے جہنم بن جائے، یہ مجھے آپ کے تعلق کی جنت سے نہیں نکال سکتی۔ اور سچ کہتا ہے کہ دنیا خواہ کتنی پرکشش ہو جائے، یہ اللہ کی فرمان برداری کے جذبے کو سرد نہیں کر سکتی۔ دونوں کا حاصل یہ ہے کہ میرا اور میری دنیا کا تعلق اللہ کے ساتھ میرے تعلق کے ماتحت رہے۔ صبر برے حالات میں بھی اللہ سے متعلق رکھتا ہے اور سچ دنیا کی چمک دمک اور فائدے نقصان کو اللہ کی فرمان برداری پر اثرانداز نہیں ہونے دیتا۔ ان دونوں اوصاف کا مشترک مادہ وفاداری ہے، اللہ سے وفاداری، اُس کے احکام سے وفاداری، اس کے رسول سے وفاداری وغیرہ۔ افسوس اس وفاداری کا ہی ہم میں تقریباً فقدان ہے۔ ہم اللہ کے لیے تکلیف اٹھانے کے تصور سے بھی ڈرنے کے عادی ہوگئے ہیں اور یہ سوچ ہمارے لیے ایک ناگوار سوچ بن گئی ہے کہ اللہ سے تعلق نبھانے کے لیے آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے، نقصان اٹھانے پڑتے ہیں، اپنی محبوب چیزوں کو چھوڑنا پڑتا ہے اور راحتوں سے منہ پھیر کر تکلیفوں کو دعوت دینی پڑتی ہے۔ یعنی ان سب کا امکان ہے۔ یہ سارے تصورات ایمانی ذہن رکھنے والے لوگوں کے لیے بھی نامانوس بلکہ وحشت انگیز ہوچکے ہیں۔ اللہ کے لیے قربانی دینے کا تصور اتنا ڈراؤنا بن چکا ہے کہ اس سے خود کو بچانے کے لیے ایک خیالی خدا بنانے کی مہم شروع ہو چکی ہے۔ حقیقی خدا سے بچنے کی مسلسل تگ ودو کی وجہ سے ہماری زندگی اور ہماری خواہشات کے بہت ہی تھوڑے حصے پر تعلق باللہ کی روشنی پڑ رہی ہو تو پڑ رہی ہو، بیش تر حصے اس تعلق کی حرارت اور روشنی سے محروم ہیں۔ اگر ہمیں اپنے موجودہ بحران اور تنزل کا مجبوراً کوئی ایک سبب بتانا ہوتو وہ سبب یہ ہے کہ ہم اللہ کے ساتھ وفادار رہنے کی روایت، جذبے اور تخیل سے دور ہوگئے ہیں۔ ہم نے اپنے اندر مذہبیت کا ایک ایسا نظام پیدا کر لیا ہے جو اللہ کے لیے قربانی دینے کے عاجزانہ اور والہانہ جذبے سے خالی ہے۔ تو بھائی، اب ہمارے پیشِ نظر یہی مقصد ہونا چاہیے کہ کسی بھی طرح بیوفائی کے زہریلے دھویں سے باہر نکلنا ہے۔
تو جناب، صابر وہ ہے جو کسی بھی حال میں اللہ سے اپنے متشکرانہ تعلق کو مسلسل اضافے کی حالت میں برقرار رکھے، اور سچ بولنے والا بندہ وہ ہے جو دنیا کو حق پر ترجیح نہ دے اور آخرت سے غافل نہ رہے۔ ویسے ہر اچھائی میں یہ برکت ہوتی ہے کہ وہ دوسری تمام اچھائیوں کے حصول کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اچھائی کی ایسی تاثیر کو دیکھتے ہوئے کم ازکم میں تو اپنے لیے عمل کا جو طریقہ اور مزاج تجویز کروں گا وہ یہی ہوگا کہ استغفار کرو، جو بھی خوبی اور بھلائی سامنے آئے اس سے چمٹ جاؤ اور اسے اپنے لیے سفینۂ نوح بنا لو۔ قرآن کی ہر ہدایت، رسول اللہؐ کی ہرسنت سفینۂ نوح ہے۔ امت کا زیادہ تر حصہ سیدنا نوحؑ کے بیٹے کی طرح اس مغالطے میں مبتلا ہے کہ ہم تو پہاڑ پر چڑھ جائیں گے، وہاں طوفان کہاں سے پہنچے گا۔ مسلمانوں کی اکثریت نے یہ طرز ِ عمل بہت عرصے سے اختیار کر رکھا ہے کہ ہمیں، نعوذ باللہ، کتاب و سنت کی ندائے نجات سننے کی کیا ضرورت ہے، دنیا میں کامیابی کی اتنی سیڑھیاں ہیں کہ کسی بھی سیڑھی پر چڑھ جائیں گے تو ہم نجات وغیرہ سب پالیں گے۔ تو ہم نے دنیا میں کامیابی کو نجات کا متبادل بنا رکھا ہے اور دنیا کی تکلیفوں کو عذاب کا مترادف سمجھ رکھا ہے۔ یعنی دنیا پاس ہے تو ہم جنت میں ہیں اور دنیا پاس نہیں ہے تو ہم دوزخ میں ہیں۔
الحمدللہ، ہم رسول اللہؐ کے امتی ہیں۔ یہ نسبت ہماری بہت سی کمزوریوں اور نالائقیوں کو ان شاء اللہ ڈھانپ لے گی۔ مگر ہم میں بھی اتنی غیرت تو ہونی چاہیے کہ اپنا جائزہ لے سکیں کہ ہم امتی کہلانے کے مستحق بھی ہیں یا نہیں۔ تو سچی بات یہی ہے کہ ہم بھلا کہاں کے امتی، رسول اللہؐ کا پسندیدہ آدمی کہاں ہے؟ آپؐ کا پسندیدہ معاشرہ کہاں ہے؟ پسندیدہ ریاست کہاں ہے؟ یہ تو خیر سے بہت بڑے مطالبات ہیں، ہم تو روئے ارض پر اپنا ایک محلّہ بھی نہیں دکھا سکتے جسے دیکھ کر یہ کہا جا سکے کہ دیکھو، یہ ہے رسول اللہؐ کے ماننے والوں کا محلّہ۔ ارے ، حرم کے مطاف میں کھڑے ہوکر بھی یہ دعوا نہیں کیا جاسکتا کہ یہ رسول اللہؐ کے ماننے والے طواف کر رہے ہیں! ایسے گہرے اور ہمہ گیر بحران کو بھی محسوس نہ کرنا پرلے درجے کی سنگ دلی اور بے حسی ہے اور اس سے نکلنے کی کوشش نہ کرنا خودکشی ہے۔ تو بھائی، میں آپ کو گواہ بنا کر عہد کرتا ہوں کہ آج سے بلکہ ابھی سے اللہ کا وفادار بندہ بننے کی ہر ممکن کوشش کروں گا اور ہمیشہ سچ بولوں گا۔ اللہ مجھے اس عہد پر ثابت قدم رکھے اور صبر وصداقت کو میرا شعار بنائے۔آپ بھی یہ عہد کیجیے اور پھر دوسروں کو بھی یہ بتائیے کہ نفس کے احوال پر قابو پانا ہے تو صبر کو اختیار کرو اور نفس کے افعال پر حاوی رہنا ہے تو سچ بولا کرو۔ یہ تزکیۂ نفس کے دو بازو ہیں۔ ایک دن سچ بولنے کی پابندی نبھا لیں تو لگتا ہے کہ کندھوں پر سے نفس کا بوجھ کم ہوگیا ہے۔ اسی طرح ایک مرتبہ صبر کو اس کے بہترین مقاصد کے ساتھ اختیار کر کے دیکھیں تو ایسا لگے گا کہ نفس کے اندر کی تاریکی چھٹ گئی ہے۔ لیکن بس یہ خیال رہے کہ ہر اچھا ارادہ آزمائشو ں سے گزر کر ہی پورا ہوتا ہے۔ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کسی آزمائش میں ڈالے بغیر ہمیں اپنے مقبول بندوں میں شامل فرما لے۔ آمین۔