پاکستانی قوم کو جمہوریت اور آمریت دونوں نے مایوس کیا

109

 

کراچی ( رپورٹ: محمدانور ) ملک میں باری باری اقتدار میں اپنا حق سمجھنے والی پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن اور موجودہ حکمراں پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی ترجیحات کیا ہیں۔ ان کے پاس ملک اور قوم کی بہتری کے لیے کیا منصوبے ہیں ؟ یہ جاننے کے لیے قوم بے چین ہے کیونکہ ان جماعتوں کی سیاسی ترجیحات کیا ہیں اور وہ کیا چاہتی ہیں ،عوام کو اس کا علم نہیں ہو پارہا۔ جسارت نے مختلف نامور مبصرین سے ان کی رائے معلوم کرنے کے جاری سلسلے کے تحت مشہور و معروف شخصیات جنرل ریٹائرڈ و سابق گورنر سندھ معین الدین حیدر، سابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس ریٹائرڈ اور عام لوگ اتحاد پارٹی کے سربراہ وجیہ الدین احمد، ممتاز قانون دان اور سابق جسٹس بیرسٹر خواجہ محمد نوید اور معروف صحافی و تجزیہ کار مظہر عباس سے سوال کیا کہ ” آپ کی نظر میں ملک میں
متحرک حکومتی جماعت سمیت تین بڑی پارٹیوں پی ٹی آئی ، پی پی پی اور مسلم لیگ ن کی ترجیحات کیا ہیں ؟ سابق گورنر سندھ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ معین الدین حیدر نے کہا کہ ان پارٹیوں کی ترجیحات تو دوبارہ اقتدار حاصل کرنا اور اپنے اقتدار کو مستحکم کرنا ہے، ان تینوں جماعتوں نے اب تک عوام کے مفاد کا کوئی منصوبہ تو پیش نہیں کیا کہ ملک کی معاشی حالت پولیس ، صحت اور انصاف کے سسٹم کو کیسے بہتر بنایا جائے گا، الزام در الزامات کی سیاست دیکھ کرلوگ پریشان ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ عوام کے مفادات کے منصوبے پیش کریں اور اپنی پارٹیوں میں انتخابات کرائیں، پارٹیوں سے مورثی سیاست ختم کریں اور اچھے ٹیکنوکریٹ کو اپنے ساتھ ملائیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ ایسی جماعتوں کو ملک سے کیسے ختم کیا جاسکتا ہے معین الدین حیدر نے جواب دیا کہ پارٹیوں کو ختم نہیں کرنا چاہیے بلکہ جو لوگ عوام کے مفاد میں کام نہیں کرتے انہیں دوبارہ منتخب نہیں کرنا چاہیے۔ جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین احمد نے ان سوالات کا یوں جواب دیا کہ ” ان کی ترجیحات میرے خیال میں کچھ بھی نہیں ہے سوائے اس کے کہ ملک کا ستیاناس ہورہا ہے تو ہوجائے ، ان کا مینڈیٹ یہی ہے، یہ اسی کی کھاتے ہیں ،اسی مقصد کے لیییہ اقتدار میں آتے ہیں باریاں لگاتے ہیں، عوام کو چاہیے کہ جب بھی انتخابات ہوں اچھے لوگ جو ذاتی مفادات کے حصول کے لیے سیاست نہ کرتے ہوں، جو لالچی نہ ہوں چاہے وہ چھوٹی پارٹیوں کے ہوں انہیں منتخب کریں یہی حل ہے۔ حکمران پارٹی کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا ہے کہ یہ بھی عوام کو کچھ دینے کے لیے اقتدار میں نہیں آئے بلکہ یہ بھی اسی کاتسلسل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تو سیاست گالی ہوگئی ہے جو کسی شعبہ کے لیے اہل نہیں ہوسکا وہ سیاست کے لیے اہل ہوجاتا ہے، بس پیسہ ہونا چاہیے۔ ممتاز قانون دان اور بیرسٹر خواجہ نوید احمد کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نہیں بلکہ 11 جماعتوں کی ترجیحات یہ ہیں کہ عمران خان استعفا دے دیں یا اعلان کردے تو ان کا مقصد پورا ہوجائے گا۔ پیپلزپارٹی کے پاس تو متبادل پروگرام نہیں ہوگا کیوں کہ انہوں نے پہلے بھی آئین میں ترامیم کی حد تک کام کیے مگرنواز شریف کی پارٹی کے پاس ایک ٹیم ورک ہے جو 2 نمبر کام کرنے والے ورکرز کاٹیم ورک ہے، ان کے پاس بیوروکریٹ اور تاجر بھی 2نمبر کام کرنے والے ہیں، جب یہ پوری قوم کے ساتھ 2نمبر کام کرتے ہیں تو پھر ملک و قوم کی بھی ترقی ہوتی ہے لیکن موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے پاس ٹیم ہی نہیں ہے،ان کے پاس موٹیویشل لیڈر بھی نہیں ہے۔ خواجہ نوید نے کہا کہ عمران خان کے ویژن پر مجھے شک نہیں لیکن ان کی کمانڈ ہی نہیں ہے حلانکہ عمران خان خود کپتان رہے ہیں، انہوں نے مشرف دور کے لوگوں کو لیا ہے لیکن وہ ان سے کام نہیں لے پارہے۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ تحریک انصاف تو حکومت میں ہے اوراس کی ترجیحات تو یہ ہیں کہ اگلے ڈھائی سال ایسے ہوں کہ عوام کو کچھ ریلیف مل سکے چونکہ اب تک اس حکومت سے عوام کو ریلیف نہیں مل سکا نہ حکومت دے سکی، ایسے حالات میں وزیراعظم کا یہ بیان دینا کہ عوام مطمئن ہے افسوسناک ہے، یہ بات وہ آدمی کہہ سکتا ہے کہ جو عوام میں نہ جاتا ہو ان سے رابطہ نہ رکھتا ہو ، ریاست مدینہ کے وزیراعظم کا دعویٰ کرنے والے کو چاہیے کہ وہ اپنا حلیہ بدل کر بازاروں میں جائے، مارکیٹوں کا دورہ کرے اور معلوم کرے،پتا کرنا چاہیے کہ لوگ مہنگائی سے کتنے تنگ ہیں کیونکہ کہ حکمرانوں کا یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ جب وہ اقتدار میں آجاتے ہیں تو عوام سے کٹ جاتے ہیں۔ مظہر عباس نے کہا کہ حکومت کے لیے یہ سال بہت اہم ہے اگر اس سال ریلیف نہ دے سکی تو پھر لوگ اس کی باتوں پر یقین نہیں کریں گے جبکہ اپوزیشن جماعتوں کا مسئلہ یہ ہے وہ حکومتیں کرچکی ہیں لہٰذا جب وہ موجودہ حکومت کی مخالفت کرتے ہیں تو ان کے پاس ایک متبادل پروگرام بھی ہونا چاہیے جو عوام کو بتائیں کہ آئندہ اقتدار میں آکر اس پروگرام پر عمل کرائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کی مہنگائی کے خلاف تحریک کافی نہیں ہے اسے یہ بھی بتانا ہوگا کہ اقتدار میں آکر وہ مہنگائی کیسے کم کریں گے ۔اپوزیشن جماعتیں اب تک نعرے بازی کی حد تک حکومت کی مخالفت کررہی ہیں،ان کے پاس بھی اقتدار میں آکر کیا کریں گے کوئی پلان نہیں ہے۔ مظہرعباس کے مطابق دونوں طرف سے صرف لفاظی کی سیاست ہورہی ہے، ہماری سیاسی جماعتیں بنیادی طور پر نعرے بازی کی جماعتیں ہیں ،ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں جمہوریت نے مایوس کیا ہے اور اچھے آمر بھی نہیں آئے ۔