عقل ڈاڑھ

173

وطن ِ عزیز میں دھاندلی دھاندلی کا بہت شور مچایا جاتا ہے۔ سو لازم ہے کہ دھاندلی کے معنی پر غور کیا جائے۔ دھاندلی دھاندل سے مشتق ہے۔ جس کے لغوی معنی مکر و فریب کے ہیں۔ دھاندل باز جھگڑالو اور حجت کرنے والوں کو کہتے ہیں۔ مکار اور بے ایمان کے معنوں کے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں یہ حوالہ دینا بھی ضروری ہے کہ دھاندلی غلط لکھا جاتا ہے۔ اصل میں اس کا املا دھاندھلی ہے اور اس کے معنی امر واجبی کو چھپانے کے ہیں۔ اردو ہماری قومی زبان ہے مگر یہ معاملہ صرف زبانی کلامی کی حد تک ہے۔ ایک اور لفظ بھی غلط لکھا جاتا ہے۔ اور وہ ہے استیصال، اس کے معنی ہیں جڑ سے اکھاڑنا، کسی شاعر نے کہا ہے۔
عشق کے ہاتھوں گئے دل سے میرے صبر و قرار
ہو گیا دو دن میں استیصال اس اقلیم کا
مگر استیصال کو استحصال لکھا جاتا ہے۔ جس کے معنی ہیں حاصل کرنے کی خواہش اور خواہش بے لگام ہو جائے تو استحصال بالجبر ہونا لازمی امر ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں الیکشن سے پہلے ہی دھاندلی کا شور مچا کر اپنی شکست کا اعتراف کر لیا ہے۔ پھر بھی وہاں کے لوگ استفسار کر رہے ہیں کہ تم لوگوں نے 5,5 سال حکومت میں لوٹ مار کے سوا کیا کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کو اقتدار میں لانے والوں نے ایک اور فتح ان کی جھولی میں ڈالنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ مگر وہ یہ بھول رہے ہیں کہ گلگت بلتستان تو پہلے ہی پاکستان کا پانچواں صوبہ ہے۔ 2009 میں پیپلز پارٹی کے سید مہدی شاہ گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ تھے۔ 2015 میں مسلم لیگ ن کے حافظ حفیظ الرحمن وزیر اعلیٰ تھے۔ سیاسی مبصرین تحریک انصاف کی کامیابی کے امکان کو مسترد کر رہے ہیں۔ مگر مقتدر قوتیں ناممکن کو ممکن بنانے کی عادی ہو چکی ہیں۔ اور عادت منہ سے لگی ہوئی اس شے کی طرح ہے جو منہ ٹوٹنے کے بعد ہی چھوٹتی ہے۔ اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کو گلگت بلتستان کو پانچواں صوبہ بنانے کا اعلان کرنے کی ضرورت کیوں پڑی۔ غور طلب بات یہ بھی ہے کہ وہاں پر وفاقی وزراء اور حکومتی ترجمان کیا کر رہے ہیں۔
ہمارے شاعر، سیاسی دانشور اور سیاست دان انڈیا کے بہت گن گاتے ہیں۔ سیانوں کا قول ہے کہ گن تو اس کے گائے جاتے ہیں جس کا کھایا جاتا ہے۔ اس موضع پر پھر کبھی بات ہوگی۔ یہاں ہم بھارتی عوام کی سیاسی سوچ اور ان کی جرأت مندی کا ایک واقعہ سنانا چاہتے ہیں تاکہ اہل ِ وطن کو معلوم ہو کہ بھارت میں ادارے کیوں مضبوط اور مستحکم ہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ الیکشن کے دوران ایک وزیر اپنی پارٹی کے امیدوار کی حمایت کے لیے جا دھمکا۔ اس کا یہ عمل جمہوریت اور اس کی ذمے داری کے خلاف تھا۔ سو عوام نے پکڑ کر ایک بھوسے کی ایک کوٹھری میں بند کر دیا۔ وزیر موصوف نے بہت ڈرایا اپنے اختیارات گنوائے مگر عوام نے کہا کہ فی الحال آپ ہمارے اختیارات سے لطف اٹھائیے۔ وزیر کو بھوسے کی کوٹھری میں ٹھونسنا کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ علاقہ میں ہلچل مچ گئی۔ پولیس افسران اپنے لائو لشکر سمیت وہاں پہنچ گئے۔ عوام کو ڈرانے دھمکانے لگے۔ مگر جن کا سیاسی شعور بیدار ہو وہ گیدڑ بھبکیوں سے نہیں ڈرتے۔ علاقے کے معززین نے کہا آپ لوگ اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ وزیر موصوف نے اپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کی گھنائونی کوشش کی ہے۔ عوام نے جو کچھ کیا ہے یہ اسی سلوک کے مستحق ہیں۔ اگر آپ لوگ انہیں با عزت طریقے سے لے جانا چاہتے ہیں۔ تو تحریری طور پر معافی نامہ دینا پڑے گا اور حلفیہ طور پر یہ بیان دینا پڑے گا کہ وہ اس علاقے کی ترقی پر کوئی رکاوٹ نہیںڈالیں گے۔ یہاں کے لوگوں پر ناجائز مقدمات دائر نہیں کریںگے۔ معاملات طے ہونے کے بعد وزیر موصوف کو بھوسے کی کھوٹھری سے نکالا گیا۔ تو وہ حضرت ہاتھ منہ دھوئے بغیر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے اور پھر کبھی اس علاقہ کا رخ نہ کیا۔
چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان کا کہنا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ اگر کسی کو شکایت ہے تو وہ مجھ سے ملے۔ میرے دروازے کھلے ملیں گے۔ جہاں تک وزیر اعظم عمران خان کی آمد کا تعلق ہے تو وہ وزیر اعلیٰ کی دعوت پر آئے تھے اور شہداء کی قبروں پر پھول چڑھا کر چلے گئے۔ مگر کہنے والے تو یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے امیدواروں کو عوام کے سر پر چڑھانے آئے تھے۔ اور بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ باقی کام انہوں نے اپنے وزیروں اور مشیروں کے سپرد کر دیا ہے۔ سو اس پس منظر میں چیف الیکشن کمشنر کا یہ کہنا کہ دھاندلی کے الزام بے بنیاد ہیں ان کے فرمان کو بے بنیاد ثابت کر رہے ہیں۔ کیا چیف الیکشن کمشنر اس سوال کا جواب دینا پسند کریں گے کہ بلاول زرداری کو الیکشن کے اصولوں کی خلاف ورزی کرنے پر نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں مگر وفاقی وزراء اور حکومتی ترجمانوں کو اپنے سر پر چڑھایا گیا ہے۔ آخر کیوں؟ ان کی لغت میں دھاندلی کا مطلب کیا ہے؟ شاید ابھی تک ان کی عقل ڈاڑھ مسوڑوں میں پھنسی ہوئی ہے۔