بر آمدات میں اضافے کیلیے بجلی نرخوں میں کمی و بلا تعطل فراہمی نا گزیر ہے

99

 

کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی) ممتا زصنعت کارروں، تجزیہ کاروں، بیوروکریٹ اور معاشی ماہرین نے صنعتی اداروں کے لیے بجلی کے نرخ میںکمی سے صنعتی پیدا وار اور برآمدات میں اضافے کے امکانات پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا‘ برآمدت میں اضافے کے لیے بجلی کی قیمتوںمیں کمی سے زیادہ اہم بجلی کی بلاتعطل فراہمی ہے ‘پیدا وار اور برآمدات بڑھانے کے لیے ایسی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے جس سے اشیا کی طلب بڑھ سکے ‘ موجودہ صورتحال میںکوئی اضافی یونٹ نہیں لگا رہا ہے ‘ کچھ روز قبل بجلی کی قیمت میں ڈھائی روپے کا اضافہ کردیا گیا تھا‘ اب اگر کم کردیا گیا ہے تو ا س سے کیا فرق پڑے گا۔ جسارت سے بات چیت کر تے ہوئے ان خیالات کا اظہار ممتاز دانشور اور سابق بیوروکریٹ ارشاد احمد کلیمی، جامعہ کراچی کے شعبہ معاشیات کی پروفیسر ڈاکٹر
صفیہ منہاج، جماعت اسلامی کے بزنس مین فورم کراچی کے صدر شکیل ہاشمی، سابق نگراں وزیر صنعت خواجہ جلال الدین رومی، ممتاز صنعت کار شمیم فرپو، ممتاز تجزیہ کار سلیم فرخی، ممتاز صنعتکار زبیر موتی والا اور جیند ماکڑا نے کیا۔ ارشاد احمد کلیمی نے کہا کہ پاکستان بھر کے صنعت کار 2005ء سے بجلی کی بلاتعطل فراہمی اور قیمتوں میںکمی کا مطالبہ کر رہے تھے جو اس پیکج میں پورا کیا گیا ہے اور اگر اس پیکج پر عملد رآ مدہو ا تو پاکستان کی برآمدات اور پیداوار میں انقلابی اضافہ ہو گا‘پاکستانی مصنوعات کی پیداواری لاگت دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے ‘ اس کی وجہ بجلی کی قیمت کا زیادہ ہونا ہے‘حکومتی پیکج برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ شکیل ہاشمی نے کہا ہے کہ حکومت نے بجلی کے جس نئے ٹیرف کا اعلان کیا ہے‘ وہ برآمدی صنعتوں تک محدود ہے جس سے حکومت وہ نتائج حاصل نہیںکرسکتی جس کا اظہار اس نے نئے ٹیرف کااعلان کرتے ہوئے کیا ہے‘ ان کا کہنا تھاکہ کسی بھی ایک برآمدی صنعت کو چلانے کے لیے اس کے ساتھ دیگر درجنوں صنعتوں کی ضرورت ہوتی ہے جن کے لیے بجلی کی قیمتوں میں کمی نہیں کی گئی ہے۔ جامعہ کراچی کے شعبہ معاشیات کی پروفیسر ڈاکٹر صفیہ منہاج نے بجلی کے نرخوں میں کمی کو خوش آئند قرار دیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ پیداوار اور برآمدات میں اضافے کے لیے بجلی کی قیمتوں کی کمی سے زیادہ اہم بجلی کی بلاتعطل فراہمی ہے‘ بجلی کی موجودہ پیداوار کو دیکھتے ہوئے ایسا ممکن نہیں ہے‘ اگرکسی اور شعبے میں لوڈ شیڈنگ بڑھا کر برآمدی صنعت کو بجلی فراہم کی جاتی ہے تو اس سے معیشت پر منفی اثرات ہوںگے۔ ڈاکٹر صفیہ منہاج کے مطابق بجلی کی قیمت پیداواری لاگت کا ایک جز ہے جب کہ خام مال، ٹرانسپورٹیشن کی لاگت، مختلف اقسام کے ٹیکس پیداواری لاگت کا اہم ترین حصہ ہیںجن میں کسی قسم کی کمی دیکھنے میں نہیں آئی‘ پیٹرول پر لگائے گئے ٹیکسوں میں کمی سے پیداواری لاگت میں کمی لائی جا سکتی ہے‘ پیدا وار اور برآمدات بڑھانے کے لیے ایسی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے جس سے اشیا کی طلب بڑھ سکے اور صنعت کار پیدا وار بڑھانے میں کشش محسوس کرے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو از خود فیصلے کرنے کے بجائے صنعت کارروں کے ساتھ بیٹھ کر مسائل کے حل اور برآمدات و پیداوار میںاضافے کے لیے تجاویز ، ٹیکسوں میں کمی اور ان کی وصولی کے طریقہ کار کے سلسلے میں بات کرنی چاہیے۔ سابق نگراں وزیر صنعت خواجہ جلال الدین رومی نے کہا کہ اس اضافی بجلی پر50 فیصد رعایت سے کاروباری کساد بازاری ختم ہونے میں مدد ملے گی‘ 3 برس میں مزید 25 فیصد بجلی سستی ہونے کے ساتھ بجلی کے صنعتی کنکشنز پر پیک آور نظام بھی لاگو نہیں ہوگا جس سے صنعتی ترقی کا پہیہ تیزی سے گھومے گا‘ اس وقت ہم غیر ملکی مارکیٹ میں بنگلا دیش، بھارت اوردیگر ممالک کی مصنوعات کا نرخکے اعتبار سے مقابلہ نہیں کر پا رہے۔ ممتاز صنعت کار شمیم فرپو کا کہنا تھاکہ بجلی کی قیمتوں میں کمی سے دورس نتائج حاصل ہوںگے ‘ اب اس کمی کے بعد برآمدات میںاضافے کے ساتھ ساتھ زرمبادلہ اور روزگار میں بھی اضافہ ہو گا تاہم اس فیصلے کو مزید موثر بنانے کے لیے گیس کی قیمتوں میں بھی کمی کی جانی چاہیے‘ کراچی ملک کی معاشی شہ رگ ہے اور اس کی ایک مارکیٹ پورے پنجاب سے زیادہ ریونیو وفاق کو دیتی ہے‘ اس کی ترقی پورے ملک کی ترقی ہے لہٰذا وزیر اعظم نے کراچی کے لیے جس 1100 ارب ڈالر کے پیکج کا اعلان کیا ہے اس کا ایک روپیہ بھی کراچی پر خرچ نہیں کیاگیا اس سے حکومتی ساکھ متاثر ہو رہی ہے لہٰذا اس پر عملدر آمد ضروری ہے۔ ممتاز تجزیہ کار سلیم فرخی کا کہنا تھاکہ یہ پیکج اضافی بجلی کے لیے ہے جب کہ موجودہ صورتحال میںکوئی اضافی یونٹ نہیں لگا رہا ہے‘ ابھی پاکستان کوآئی ایم ایف کے پاس بھی جانا ہے جس کے پیکج لیے پاکستان کو تمام سبسڈی ختم کرنا ہوگی تاہم پیک آورز کے خاتمے سے صنعت کاروں کو یقینی طور پر فائدہ ہوگا۔ زبیر موتی والا نے کہا کہ حکومتی سطح پر اعلانات تو کیے جاتے ہیں تاہم ان پرعملدرآمد پر سوالیہ نشان ہے‘ آف اور پیک آورز کے درمیان3 روپے کا فرق ہے‘ جب کہ اب کچھ روز قبل بجلی کی قیمت میں ڈھائی روپے کا اضافہ کردیا گیا تھا اب اگر کمی کردی گئی ہے تو ا س سے کیا فرق پڑے گا۔ جنید ماکڑا کا کہنا تھا کہ بجلی کی قیمت میں کمی سے پیداواری لاگت کم ہوگی‘ تاہم حکومت کوکورونا کی صورتحال کے پیش نظر مزید اقدامات کرنے چاہئیں۔