سانحہ کشمور، تفصیلی تحقیقات کی ضرورت

180

وزیراعظم پاکستان عمران خان نیازی نے اعلان کیا ہے کہ مہنگائی کو قابو میں لائیں گے اس کے ساتھ ہی انہوں نے جنسی زیادتی کے خلاف سخت قانون لانے کا اعلان کیا ہے۔ گویا اس کو بھی قابو میں لائیں گے۔لیکن اس وقت سنگین ترین معاملہ تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی جنسی زیادتی ہے۔ ان واقعات میں کم عمر بچیوں کو خصوصی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نے کشمور میں ہونے والے سانحے کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے قانون سخت بنانے کی بات کی ہے۔ وزیراعظم کے خیال میں جنسی زیادتی کے واقعات قانون کی کمزوریوں کی وجہ سے بڑھ رہے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ حکومت جتنا سخت قانون بنا لے اس وقت تک ایسے واقعات بند نہیں ہوں گے جب تک قانون بروئے کار نہیں لایا جاتا۔ اس کے نفاذ میں غریب، امیر، طاقتور اور کمزور کا امتیاز نہ کیا جائے اور پورے ملک میں ہر قانون کا یہی معاملہ ہے۔ ہر قانون دو قسم کا ہے کسی کے لیے اس قانون میں رعایت ہے اور کسی کے لیے نہایت سختی ہے۔ وزیراعظم نے کشمور واقعے کا حوالہ دیا ہے جس میں ملازمت کا جھانسہ دے کر ایک عورت کو کشمور بلایا گیا اور اس کی بچی کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ عورت کو کہا گیا کہ بچی ہمارے پاس ہے مزید عورتیں لائو تو تمہیں اور بچی کو چھوڑیں گے۔ وہ مظلوم پولیس کے پاس پہنچ گئی اور جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کے مطابق پولیس اے ایس آئی محمد بخش برڑو نے اپنی بیوی اور بیٹی سے بات کروا دی کہ ہم آرہے ہیں۔ اس کے بعد ایک شخص رفیق گرفتار ہوا اس نے اپنے ٹھکانے کا پتا بتایا اور پولیس پارٹی کو وہاں لے جا رہا تھا کہ ٹھکانے پر موجود ایک اور ملزم خیر اللہ بگٹی کی فائرنگ سے رفیق ملک ہلاک ہو گیا۔ پولیس کے اس دعوے کو ذرا اس حقیقت کے پیمانے میں ناپیں کی یہ چھاپا ایس ایس پی کی قیادت میں مارا گیا تھا۔ پولیس کی حراست میں ہر طرف پولیس والوں کی موجودگی میں خیر اللہ بگٹی نے رفیق ملک کو مار دیا۔ رفیق ملک وہ شخص ہے جس کے ذریعے اس مکروہ دھندے کے اصل پشت پناہ بااثر افراد تک پہنچا جا سکتا تھا۔ مرکزی ملزم رحمت اللہ کو بلوچستان سے گرفتار کیے جانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خیر اللہ بگٹی نے پولیس کی حراست میں کس خوبصورتی سے رفیق کو نشانہ بنایا۔ کراچی کے عوام کو تو ایسے بہت سے واقعات یاد ہیں پولیس فہیم کمانڈو کو لے کر تفتیش کی غرض سے کسی خاص مقام پر جارہی ہوتی ہے۔ دو پولیس والوں کے درمیان بیٹھے فہیم کمانڈو کو ایک زیر تعمیر عمارت کی دوسری منزل سے نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا جاتا ہے اور مقدمہ نا معلوم لوگوں کے خلاف درج ہو جاتا ہے۔ مقصد شواہد مٹانا تھا اور یہ بات بعد میں سامنے بھی آگئی کہ ایسے قتل پولیس کو اصل شواہد اور سرپرستوں تک پہنچنے سے روکنے کے لیے ہوتے ہیں۔ اے ایس آئی کے جذبے کی قدر کی جانی چاہیے۔ اس نے بیوی اور بیٹی کو آگے بھیج کر خطرہ مول لیا۔ اب اس کو اعزاز دینے، بیٹی کی تعلیم کے اخراجات دینے اور نقد امداد کے اعلانات ہو گئے ہیں۔ بات آگے جا رہی ہے لیکن اصل بات غائب ہے۔ کشمور میں کون ہے جو ایسا دھندہ کروا رہا ہے۔ رفیق ملک سے پولیس نے کیا تفتیش کی۔ اس کے موبائل کے ذریعے اصل بدمعاشوں تک پہنچا جا سکتا تھا۔ پولیس کی حراست میں کسی کا مارا جانا معمول بنتا جا رہا ہے۔ جتنا زور انعامات دینے پر ہے اس سے زیادہ زور اس غفلت پر بھی ہونا چاہیے کہ زیر حراست ملزم کیسے نشانہ بن گیا اس غفلت کا مرتکب کون ہے۔ پولیس نے ایس او پیز پر عمل کیا تھا یا نہیں۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کشمور زیادتی کیس کے بارے میں سینیٹ میں تحریک التوا بھی جمع کرا دی ہے۔ جس میں انہوں نے توجہ دلائی ہے کہ 2020ء میں ایسے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ ان کا سبب یہی ہے کہ جرم ثابت ہونے پر بھی مجرموں کو سرعام پھانسی دینے بلکہ سزائے موت دینے سے حکومت انکار کر دیتی ہے۔ بہت سے ملزم کمزور استغاثہ اور پیچیدہ عدالتی نظام کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن اگر سخت سزا نافذ کر دی جائے تو یہ واقعات کم ہو سکتے ہیں۔ سراج الحق صاحب کو یہ سوال بھی اٹھانا چاہیے کہ پولیس کی زیر حراست ملزم کیونکر ہلاک ہو جاتا ہے اور ایسا ملزم جس کے ذریعے اہم لوگوں تک پہنچنا ممکن تھا اس کی تفتیش ہونی چاہیے۔ سراج الحق صاحب نے اپنی تحریک التوا میں گزشتہ 6 برس کے دوران کے واقعات کا حوالہ دیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس عرصے میں خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے 22 ہزار واقعات میں سے کسی کے مجرموں کو سزائیں نہیں دلوا سکیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خرابی کہاں ہے۔ وزیراعظم صاحب بھی غور کر لیں یہ واقعات سخت قانون بنانے سے نہیں بلکہ قانون کے نفاذ سے رکیں گے جس میں ہر حکومت ناکام رہی ہے۔