کہوٹا پنجاب کا ایک دور افتادہ نیم پہاڑی علاقہ ہے کبھی یہ ایک گم نام قصبہ ہوا کرتا تھا پھر ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم نے اس کی پہاڑیوں کے دامن میں ایٹمی پلانٹ قائم کرکے اسے بین الاقوامی شہرت کا حامل بنادیا۔ کئی دشمن ملکوں نے اس کے گرد سرخ دائرہ لگا رکھا ہے۔ ان کا بس چلے تو وہ اس پر حملہ کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجادیں۔ ماضی میں اس پر حملے کی کئی بار کوششیں بھی ہوچکی ہیں لیکن اس کی سیکورٹی کا نظام اتنا فول پروف ہے کہ یہ ساری کوششیں ناکامی کا داغ لیے ہوا میں تحلیل ہوگئیں۔ کہوٹا میں کسی غیر ملکی باشندے کو داخلے کی اجازت نہیں ہے اس کے لیے کہوٹا سے دس کلو میٹر پہلے ایک چیک پوسٹ قائم ہے جہاں تعینات مسلح گارڈز گاڑیوں کی چیکنگ کرکے انہیں آگے جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ کہوٹا کی اسٹرٹیجک اہمیت کے پیش نظر یہاں سیاسی سرگرمیاں بھی بالعموم محدود رہی ہیں۔ قومی اسمبلی کا حلقہ کہوٹا اور مری پر مشتمل ہے اسے خاقان عباسی کی آبائی نشست سمجھا جاتا تھا اور وہ اس علاقے کا چکر لگائے بغیر ہی جیت جاتے تھے لیکن پچھلی دفعہ پی ٹی آئی کے امیدوار نے انہیں شکست فاش سے دوچار کردیا۔ بعد میں مسلم لیگ (ن) نے انہیں ضمنی انتخاب میں لاہور سے جتوا کر انہیں قومی اسمبلی میں پہنچا دیا۔
پی ٹی آئی ہو، مسلم لیگ (ن) ہو یا پیپلز پارٹی کہوٹا میں کوئی جماعت بھی فعال نہیں ہے۔ البتہ جماعت اسلامی اپنے ماہوار اجتماعات کے ذریعے عوام سے رابطہ بحال رکھے ہوئے ہے۔ وہ عوام کے اندر خاموشی سے کام کررہی ہے۔ یہ اسی خاموش محنت کا نتیجہ تھا کہ وہ 9 نومبر کو امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق کی آمد پر اپنی بھرپور سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب رہی۔ یہ بلاشبہ کہوٹا کی تاریخ کا نہایت کامیاب سیاسی جلسہ تھا جو اگرچہ ایک نہایت وسیع شادی ہال میں منعقد کیا گیا لیکن رش اتنا تھا کہ ہال کے باہر اور سڑک پر بھی لوگوں کی بھاری تعداد موجود تھی۔ اس جلسے کو شمولیتی کنونشن کا نام دیا گیا تھا۔ جس میں کہوٹا کے کم و بیش اڑھائی سو خاندانوں نے جماعت اسلامی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ جب کہ ہزاروں افراد وہ تھے جو جماعت اسلامی کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے نعرہ زن تھے۔ کہوٹا کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ جماعت اسلامی کے امیر یہاں تشریف لائے تھے اور لوگ انہیں براہِ راست سننا چاہتے تھے۔ چناں چہ نعروں کا ہنگامہ فرو ہوا تو سراج الحق براہ راست عوام سے مخاطب ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی والدہ بیمار ہیں اور اسپتال میں داخل ہیں لیکن انہوں نے یہاں آنے کی اجازت دی ہے کیوں کہ وہ سمجھتی ہیں کہ یہ کام بھی جہاد سے کم نہیں ہے۔ پھر انہوں نے ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہیں۔ ان کے پیش نظر عوام کو درپیش مسائل نہیں ہیں۔ نہ غربت اور مہنگائی ان کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ ان کا اصل مسئلہ اقتدار کا حصول ہے، وہ ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی چیلنج کررہی ہیں اور عمران خان کی حکومت کو بھی رگید رہی ہیں۔ محترم سراج الحق نے کہا کہ جماعت اسلامی کا اقتدار کی اس کشمکش سے کوئی لینا دینا نہیں ہے وہ مہنگائی اور دیگر عوامی مسائل میں عوام کی آواز بن کر سیاست کے ایوانوں میں لرزہ طاری کررہی ہے۔ محترم امیر جماعت نے کہا کہ وہ دیر اور باجوڑ میں لاکھوں کے اجتماعات سے خطاب کرکے آئے ہیں، ان میں عوام کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ آج یہی منظر انہیں کہوٹا میں بھی دیکھنے کو ملا ہے، لوگ رضا کارانہ طور پر جماعت اسلامی میں شامل ہورہے ہیں۔ محترم سراج الحق کے خطاب میں جوش اور ہوش ایک دوسرے گلے مل رہے تھے اور نوجوانوں کے نعروں نے ایک سماں باندھ دیا تھا۔ محترم سراج الحق نے اپنے خطاب کو زیادہ طول نہیں دیا اور عوام کو دعوت دی کہ وہ خود حالات کا تجزیہ کرکے صحیح نتائج اخذ کریں اور جماعت اسلامی کو اپنے ساتھ لے کر چلیں۔ کہوٹا میں جماعت اسلامی کا یہ اجتماع مدتوں یادگار رہے گا۔