پچھلے ماہ آثار قدیمہ کے ماہرین نے مصر میں ساٹھ کے قریب مدفون تابوت دریافت کیے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تابوت انتہائی عمدہ حالت میں ہیں۔ ان تابوتوں کے ساتھ کئی مجسمے بھی ملے ہیں۔ ان میں خاص طور سے تانبے کا ایک مجسمہ ’’نیفرٹیٹی‘‘ نامی قدیمی مصری تہذیب کی ایک دیوی کا ہے۔ یہ سارے مجسمے ’’سقارہ‘‘ کے قدیم قبرستان سے ملے ہیں۔ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اِن مجسموں اور تابوتوں کا تعلق اُس دور کے اعلیٰ حکومتی عہدیدار اور اہلکاروں سے ہوسکتا ہے۔ ہزاروں سال پرانے لکڑی کے یہ تابوت اور ان میں بند حنوط شدہ لاشیں اب تک تقریباً اپنی اصل حالت میں ہیں۔ آثارِ قدیمہ کے ماہر اسے مصر کے لیے انتہائی سنسنی خیز واقعات میں سے ایک قرار دے رہے ہیں۔
ہمارے خیال میں مصر کے موجودہ صدر السیسی پر اِن سنسنی خیز واقعات کا اثر ہوا ہے۔ یوں تو انہیں کہا جاسکتا ہے کہ کسی ظالم فرعون (خاص طور سے وہ جو سیدنا موسیٰ کے زمانے میں تھا) کا اُن پر سایہ ہے کیوں کہ جو کچھ وہ مصر میں کررہے ہیں وہ اُسی فرعون کی پیروی لگتی ہے۔ حال ہی میں مصر میں صرف 10 دنوں کے اندر 49 قیدیوں کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ بعض دفعہ تو اجتماعی پھانسیاں دی گئیں۔ پھانسی سے قبل لواحقین کو اطلاع تک نہ دی گئی۔ یہ گزشتہ 10 دنوں میں خاموشی کے ساتھ ہوا۔ پوری دُنیا خاص طور سے یورپ اور پورا مغرب خاموش دم سادھے دیکھتا رہا۔ مصر میں سیاسی مقدمات میں انصاف کو نظر انداز کرنے کی روش ہے۔ پچھلے ایک ماہ کے دوران اب تک 2 ہزار مظاہرین کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کیا جاچکا ہے۔ مصر کے صدر السیسی جنہیں جدید فرعون کہا جانا چاہیے انہوں نے مصر کے پہلے صدر جو انتخابات کے نتیجے میں چنے گئے تھے ہٹا کر مصر کی حکومت پر قبضہ کیا۔ جی ہاں محمد مرسی جمہوری طریقے سے چنے جانے والے مصر کے پہلے صدر تھے۔ وہ انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھے۔ یعنی اب تک کے تمام مصری صدور سے زیادہ تعلیم یافتہ تھے۔ 2012ء میں وہ صدر چنے گئے تھے۔ لیکن محض ایک سال بعد ہی انہیں عہدے سے برطرف کرکے گرفتار کرلیا گیا۔ انہیں جیل میں پھینک دیا گیا۔ 6 سال تک قید تنہائی میں رکھا گیا۔ انہیں نہ ادویات فراہم کی گئیں اور نہ ہی صحت بخش کھانا دیا گیا۔ اس کے برعکس کیا گیا۔ یعنی انہیں انتہائی بُری خوراک دی گئی۔ انہیں نہ ڈاکٹروں سے ملنے دیا گیا نہ اپنے وکلا سے ملنے دیا گیا۔ محمد مرسی کو عدالت میں ایک سائونڈ پروف پنجرے میں لایا جاتا، آخری بار جس مقدمے میں اُن کو عدالت میں پیش کیا گیا وہ ایک جاسوسی کا مقدمہ تھا جس میں اُن پر الزام تھا کہ وہ فلسطینی تنظیم حماس سے رابطوں میں ہیں۔ مقدمے کی کارروائی کے دوران وہ عدالت سے خطاب کے بعد گر گئے۔ انہیں کسی قسم کی کوئی طبی امداد نہیں دی گئی اور وہ اُس پنجرے میں انتقال کرگئے۔
اخوان المسلمون نے محمد مرسی کی موت کو ’’قتل‘‘ قرار دیا تھا اور حقیقت میں یہ قتل ہی تھا۔ مصر میں جمہوریت کا معاملہ انتہائی نازک رہا۔ لیکن دُنیا نے اسے بڑے ٹھنڈے ٹھنڈے قبول کیا۔ وہاں جمہوریت کے نام پر آمریت قائم رہی اور دُنیا نے اُس کو قبول کیا۔ 2011ء میں مصر میں اخوان المسلمون کی تحریک کے نتیجے میں حسنی مبارک کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ 2012ء میں اخوان المسلمون کی حمایت سے وجود میں آنے والی حزب الحریت والعدل (فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی) نے مصر میں ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اخوان المسلمون محمد خیرت سعد کو صدر بنانا چاہتی تھی لیکن اُن کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد محمد مرسی مصر کے صدر منتخب ہوئے۔ لیکن قصر صدارت کے بجائے انہیں 6 سال قید تنہائی میں رکھا گیا اور بالآخر عدالت میں انتقال کرگئے۔ جمہوریت کو عوام کی حکومت کہا جاتا ہے کیوں کہ وہ عوام کی رائے سے منتخب کی جاتی ہے۔ لیکن کیا واقعی وہ عوام کی حکومت ہی ہوتی ہے۔
ابھی امریکا میں انتخابات ہوئے ہیں، وہی حال ہے جو پاکستان میں ہوتا ہے، پیسے کا کھیل۔ کہتے ہیں کہ امریکا میں جمہوریت نہیں ہے بلکہ امرا کی حکومت ہے، عام لوگ محکوم ہی ہوتے ہیں، اگرچہ انہیں شہری کہا جاتا ہے، اصل حکمران صرف 550 لوگ ہیں جو کھرب پتی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بھی انتخابات میں مداخلت کی جاتی ہے۔ کبھی ریاستی اداروں کی جانب سے اور کبھی سیاسی جماعتوں کی طرف سے، اور بنیادی طور پر پیسہ کام دکھاتا ہے۔ یہ بھی مداخلت ہی ہے کہ بلدیاتی انتخابات سے عوام کو محروم رکھا جاتا ہے۔ نچلی سطح پر مداخلت سے پاک انتخابات سے عوام تک جمہوریت کے واقعی اثرات پہنچتے ہیں۔ عوامی فلاح وبہبود کے کام ہوتے ہیں، جمہوریت مضبوط ہوتی ہے۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو اختیارات حاصل نہیں لیکن وہ اربوں اور کھربوں میں کھیلنے والے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ڈرتا ہے۔ آج سینیٹ اور اسمبلی میں منڈی لگتی ہے، جانوروں کی طرح بولیاں لگائی جاتی ہیں لیکن جمہوریت کا حُسن متاثر نہیں ہوتا۔ البتہ عوام متاثر ہوجاتے ہیں۔ مصر ہو، امریکا ہو یا پاکستان، انتخابات میں سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے نظر آتے ہیں۔ البتہ مغرب میں فرق یہ ہوتا ہے کہ فوج کی براہِ راست مداخلت سامنے نظر نہیں آتی۔ انتخابی نظام میں وقت کے ساتھ ساتھ اصلاحات ہونی چاہئیں اور سیاست صرف انتخابات کے لیے نہیں کی جانی چاہیے کہ یہ تو اصل میں مخلوق خدا کی خدمت کا نام ہے۔ کیوں کہ آج اگر مصر کے حسنی مبارک سقاریہ کی طرح کسی قبرستان میں مدفون کیے جائیں گے تو کیا السیسی اور دیگر کا انجام اس سے الگ ہوگا؟۔