کنویں اور کھائی کے درمیان

216

ایک صوبے کا آئی جی اغوا ہوجائے، 60 سے زائد اعلیٰ پولیس افسران احتجاجاً رخصت پر جارہے ہوں، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر شور بپا ہو لیکن وزیراعظم کو یہ بات جھوٹی اور پرمزاح لگے، اس وزیراعظم اور حکومت کی دماغی صحت کے بارے میں تب کیا کہا جائے گا اور اب کیا کہا جائے گا جب کہ فوج نے تسلیم کرلیا ہے کہ رینجرز اور آئی ایس آئی کے افسران نے اپنی حدود سے تجاوز کیا تھا اور ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں ذمے داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ فوج کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’بانی پاکستان کے مزار کی بے حرمتی کے واقعے پرآئی ایس آئی اور رینجرز پر فوری اقدامات کے لیے شدید عوامی دبائو تھا‘‘۔ جھوٹ بولنے میں حکومت تنہا نہیں ہے سب ہی کا ہیائو کھل گیا ہے۔ کوئی پوچھے حضور کیپٹن صفدر کے خلاف کراچی میں کب اور کس سطح کا احتجاج ہوا، کہاں کہاں عوامی دبائو کے باعث فساد پھوٹ پڑے کہ رینجرز اور آئی ایس آئی افسران اپنے ہوش کھو بیٹھے۔ بہرحال، چلیے، پیٹی بھائیوں کی حمایت میں اتنی جوکھم تو بنتی ہے۔ کورٹ آف انکوائری کی رپورٹ کے مطابق ’’آئی ایس آئی اور رینجرز حکام نے اس واقعے پر پولیس کی سست روی کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ ہی جوش کا مظاہرہ کیا اور خود قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا‘‘۔ اپوزیشن کے معاملے میں یہ جوش خروش پہلی مرتبہ نہیں ہے۔ غلط منصوبہ بندی اور منزل مقصودسے ادھر ادھر ہونے میں اوور ہونا ہمارے اداروں کی روایت ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’فوجی افسران زیادہ مناسب طریقے سے اقدامات لے سکتے تھے اور اگر وہ تحمل اور رواداری سے کام لیتے تو کوئی نا مناسب واقعہ پیش نہ آتا اور ریاست کے دو اداروں کے درمیان غلط فہمی نہ ہوتی‘‘۔ رپورٹ میں بالکل درست کہا گیا لیکن اس کا کیا کیا جائے جسے ذرا طاقت ملتی ہے، اقتدار حاصل ہوتا ہے وہ سوچتا ہے تمام مخالفین پر چاند کی چاندنی اور زمین کا رزق حرام کردے۔ کوئی اس وسعت ظرفی کے لیے تیار ہی نہیں ہے کہ:
گرمی بہت ہے آج کھلا رکھ مکان کو
اس کی گلی سے رات کو پروائی آئے گی
آئی جی سندھ کا رینجرز اور آئی ایس آئی کے ہاتھوں اغوا اور پھر پولیس کا ردعمل اس بات کی علامت ہے کہ ریاست کا بحران کناروں سے باہر چھلک رہا ہے۔ افراد نہیں ادارے اب اس بحران کی شدت پر ردعمل دے رہے ہیں۔ پولیس افسران نے اپنے احتجاج سے اسٹیبلشمنٹ کو باور کرایا ہے کہ ’’حضور ہمارا نام بھی شامل ہے تزئین گلستاں میں‘‘۔ ریاست کے روز مرہ معاملات آپ ہمیں بائی پاس کرکے نہیں چلاسکتے۔ یہ پولیس ہی ہے جو ریاستی جبر اور نظم ونسق کو معمول پر رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اپوزیشن کی تحریک جو تحریک انصاف کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت پر استوار ہے اس کی ابتدا ہی میں ریاستی اداروں میں تصادم، وفاق اور ایک صوبے میں پھوٹ اس بات کی علامت ہے کہ ہماری حکومتوں اور مقتدر اداروں نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔
یہ بات طے ہے کہ پاکستان ڈیمو کریٹک مومنٹ کی کا میابی سے ملک میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آنی ہے۔ نوازشریف اور مولا نافضل الرحمن کی فوج پر لعن طعن کو بیانیہ کا نام دیا جارہا ہے۔ یہی بیانیہ عمران خان کا تھا جب نوازشریف کی حکومت تھی اور عمران خان اپوزیشن میں تھے۔ جرنیلوں، اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کے خلاف عمران خان بھی تب اتنے ہی پرجوش تھے۔ پی ڈی ایم کو جیسے ہی گرین سگنل ملے گا اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں ان کے پنکھوں سے ٹھنڈی ہوائیں آنا شروع ہوجائیں گی۔ جیسے جیسے یہ اقتدار کے نزدیک ہوتے جائیں گے ریاستی ادارے ان کی ضرورت بنتے جائیں گے۔ عمران خان، نوازشریف، مولانا فضل الرحمن، پیپلز پارٹی سب فوج سے مفاہمت کی طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ پی ڈی ایم بھی اقتدار میں آنے کے بعد عوام کو ریلیف دینے میں ناکامی کے بعد اسٹیبلشمنٹ کا ایسے ہی سہارا لے رہی ہوگی جیسے آج تحریک انصاف۔
بہرحال یہ تو تب ہوگا جب ہوگا فی الوقت ملک کی سیاسی صورتحال پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتی جارہی ہے۔ ان حالات میں گلگت بلتستان الیکشن بہت اہم ہیں۔ گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کے لیے کچھ نہیں۔ جس بھونڈے طریقے سے ان کے امیدوار انتخابی مہم چلا رہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے پی ٹی آئی کی جیت کے امکانات کم سے کم ہیں۔ مقابلہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہے۔ ان میں سے جو پارٹی بھی حکومت بنائے گی گلگت بلتستان کی دفاعی اہمیت کی وجہ سے اس کے اور اسٹیبلشمنٹ کے روابط لازمی ہیں۔ نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے باب میں ساری کشتیاں جلادی ہیں لیکن گلگت بلتستان میں کامیابی کی صورت میں انہیں جلی ہوئی کشتیوں کی راکھ پر چل کر ہی اسٹیبلشمنٹ سے رابطے میں رہنا ہوگا۔ گلگت بلتستان سے قومی سلامتی کے معاملات جس طرح منسلک ہیں وہ ایسا علاقہ نہیں ہے جہاں اسٹیبلشمنٹ کسی بھی حکومت کو کھلی چھوٹ دے سکے یا جہاں اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی کرکے حکومت کی جاسکے۔ گلگت بلتستان میں صاف شفاف الیکشن وقت کی ضرورت ہیں۔ اگر اس الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ نے کسی سلیکشن کا مظاہرہ کیا تو اس کا ردعمل پورے ملک میں ظاہر ہوگا۔ فری اینڈ فیئر الیکشن کی صورت میں اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کے درمیان بات چیت کا راستہ کھلے گا اور پورے ملک کے معاملات زیر بحث آسکیں گے۔
گلگت بلتستان میں الیکشن کے بعد اپوزیشن واپس اپنے اصل مطالبے یعنی عمران خان کی حکومت کے خاتمے کی طرف لوٹ آئی گی۔ دسمبر تک اسٹیبلشمنٹ کو کوئی حتمی فیصلہ کرنا ہوگا۔ تاکہ مارچ میں سینیٹ الیکشن سے پہلے نئی اسمبلیاں وجود میں آجائیں اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اپوزیشن اسمبلیوں سے استعفے دے سکتی ہے۔ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرسکتی ہے۔ اسلام آباد گھیرائو میں آگیا تو اس صورتحال سے نمٹنا پولیس کے بس کا کام نہیں ہوگا۔ تب اسٹیبلشمنٹ کو مداخلت کرنی پڑے گی۔ اپوزیشن سے مار دھاڑ اور گرفتاریاں اس کے نتائج کسی کے لیے بھی خوش کن نہیں ہوں گے۔ اپوزیشن کے استعفوں کی صورت میں ضمنی انتخاب کا انعقاد کیا گیا تو اپوزیشن ان میں حصہ لے کر عمران حکومت کو بیساکھیوں سے محروم کرسکتی ہے۔ ملک کو مشکل حالات سے نکالنے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ اپوزیشن کے اسلام آباد مارچ یا اسمبلیوں سے استعفوں تک نوبت پہنچ گئی تو سینیٹ کے الیکشن مشکل ہوجائیں گے جس سے آئینی بحران ہی جنم نہیں لے گا ملک میں چاروں طرف بحران ہی بحران ہوں گے۔
سرمایہ دارانہ جمہوریت اپنے اختتام کی اس منزل پر ہے جہاں اس میں کچھ بھی ڈلیور کرنے کی صلاحیت نہیں رہی ہے۔ بلاول جب گوجرانوالہ جلسے میں شرکت کے لیے پنجاب پہنچے تھے اسی وقت جناح اسپتال کراچی میں حقوق مانگنے پر ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف پر پولیس لاٹھیاں برسا رہی تھی۔
دن میں دو وقت کی روٹی بھی اب ملک کی بڑی آبادی کے لیے عیاشی کے زمرے میں آتی جارہی ہے۔ عوام میں یہ تاثر پختہ ہوتا جارہا ہے کہ حکومت فوج اپوزیشن سب چور ہیں۔ کوئی بھی ملک وقوم کا نجات دہندہ نہیں۔ پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام عوام دشمن اور قاتلانہ نظام کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ یہ نظام اور اس پر استوار ریاست اور تمام اداروں کا کردار عوام دشمنی کے سوا کچھ نہیں۔ اس صورتحال میں پی ڈی ایم کی حکومت آئے یا کسی اور کی عوام کے لیے اس میں کچھ نہیں۔ چہروں کی تبدیلی سے کچھ نہیں ہوگا۔ حتمی حل نظام کی تبدیلی ہے۔ ہمیں خلافت راشدہ کی طرف آنا ہوگا۔ اسلام کے نظام خلافت کے سوا کوئی اور نظام حکومت ان مسائل سے عہدہ برآنہیں ہوسکتا۔ یہ اسلام ہی جس میں پاکستان اور انسانیت کی نجات ہے۔