جمشیدروڈ پر مفتی عبداللہ پر حملے میں ملوث مرکزی ملزم حارث سمیت 2 ملزمان گرفتار کر لیا گیا۔
ڈی آئی جی سی ٹی ڈی عمر شاہد نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ مفتی عبداللہ پر قاتلانہ حملہ کرنے والے گروہ کو گرفتار کرلیا گیا، چند روز پہلے مولانا عبداللہ پر جمشید کوارٹرز میں حملہ کیا گیا تحقیقات کے مطابق فرقہ وارانہ نیٹ ورک حملے میں ملوث نہیں۔
سی ٹی ڈی حکام کا کہنا ہے کہ ملزمان کی طرف سے وارداتوں کا نیا طریقہ سامنے آیا ہے، مفتی عبد اللہ سافٹ ٹارگٹ تھے جب کہ مولانا عادل کیس سے متعلق کام کررہے ہیں،مولانا عادل کیس سے متعلق ٹیکنیکل شواہد ملے ہیں، مولانا عادل کیس میں چند مشتبہ افراد کو کلیئر کر دیا گیا۔
Assassination attack on Mufti Abdullah of Subhani Jama Masjid in Lasbela in Karachi. He was shot in the abdomen and was rushed to Jinnah Postgraduate Medical Centre. The accused was caught by the people and has been shifted to Jamshed Town Police Station pic.twitter.com/OYuYISLbYW
— draligi (@draligi) October 31, 2020
سی ٹی ڈی افسر راجا عمر خطاب نے کہا کہ مفتی عبداللہ اور حملہ آور میں لین دین کا کوئی تنازع نہیں تھا۔
واضح رہے کہ جامعہ مسجد سبحانیہ جمشید کوارٹر روڈ کے امام و خطیب مفتی عبداللہ یامین پر قاتلا نہ حملہ کرنے والے ملزم سے ہوشربا انکشافات سامنے آئے تھے۔
ملزم نے جس نمبر پر واردات سے قبل بات کی وہ سابق ایس ایچ او جمشید ظفر اقبال کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔ مفتی عبداللہ یامین کے خاندانی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ ایس ایچ او ظفر اقبال مہمند جب جمشید کوارٹر میں تعینات تھا اس وقت وہ اکثر علمائے کرام کو تنگ کرتا تھا جس کی وجہ سے مفتی عبداللہ یامین اور جامعہ بنوری ٹاؤن کے امور متفرقہ کے ناظم نے اعلیٰ پولیس حکام سے کہہ کر ظفر اقبال کا تبادلہ کرایا تھاجس کے بعد ظفر اقبال نے جاتے ہوئے مفتی عبداللہ یامین کو کہا تھا کہ یہ اچھا نہیں کیا میں بھی کراچی میں ہوں دیکھا جائے گا۔
ملزم مدثر نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بتایا کہ اسے نہیں معلوم کہ وہ کس پر حملہ کر رہے ہیں تاہم یہ ضرور بتایا گیا تھا کہ وہابی مولوی ہے اس کو ختم کرنا ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ ایک اور ساتھی کو شامل کیا گیا تھا۔