پنجاب سے تعلق رکھنے والی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن خاتون جج ڈاکٹر ساجدہ احمد نے چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد قاسم خان کو خط لکھا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ وکلاء کی جانب سے خواتین ججوں کو گالیاں دینے، ہراساں کرنے اور بدتمیزی کرنے پر ایکشن نہ لیا گیا تو وہ سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ، ہیومن رائٹس کمیشن، وومین ججز اور انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن آف لائرز میں پاکستان کے شرپسند وکلاء کے کرتوتوں اور ججوں کیخلاف اُن کی بدتمیزیوں کو نمایاں کریں گی۔
تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر ساجدہ احمد نے وکلاء مردوں کی جانب سے توہین آمیز الفاظ اور گالیوں کی شکایت چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے ایک خط میں کی جس میں اُن کا کہنا تھا کہ ہم فراہم کردہ مراعات جیسے گاڑی، لیپ ٹاپ اور اضافی تنخواہ کے بدلے اپنی خاندانی عزت کو داؤ پر نہیں لگا سکتے۔ اسلام آباد میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے بہتر تھا وہ اپنا خاندانی کام چوپایوں کو چراتیں اور پاک زندگی گزارتیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر اسلام میں خودکشی جائز ہوتی تو عدالت کی عمارت سے کود کر جان دے دیتیں کیونکہ اس پیشے میں وکلاء کی خواتین ججوں کو گندی گالیاں، ہراسگی اور بدتمیزی حد سے بڑھ گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ غیر پیشہ ور وکلاء کیخلاف تعزیراتِ پاکستان کے سیکشن 228 کے تحت اور توہین عدالت کی کارروائی کیوں نہیں کی جارہی؟ آپ سنجیدگی سے مسائل کیوں نہیں حل کرتے یا آپ کو اپنی عدالت سنبھالنا نہیں آتی؟
انہوں نے کہا کہ یہ عظیم و مقدس پیشہ اب کالی بھیڑوں اور غیر پیشہ ورانہ افراد کے حوالے کردیا گیا ہے۔ قانون کی بالادستی کے حصول میں ہم ناکام رہے ہیں اور ہماری اصلیت اُس وقت دنیا نے دیکھی جب وکلاء نے امراضِ قلب کے ہسپتال پر اُس وقت حملہ کیا جب وہاں مریضوں کی جان بچائی جارہی تھی۔