پاکستان کے حکمران بھارت سے کب نمٹیں گے ؟

142

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے خبر دار کیا ہے کہ نومبر اور دسمبر میںکراچی ، لاہور اور پشاور میں بھارتی دہشت گردی کے بڑے واقعات کا خطرہ ہے ۔ انہوں نے بتایا ہے کہ افغانستان میں بھارتی سفارت خانہ سازشوں کا مرکز بنا ہوا ہے اور بھارتی کرنل راجیش نامی سفارتکار پاکستان کے خلاف کروڑوں روپے بانٹ چکا ہے ۔ اس نے دہشت گردوں سے چار ملاقاتیں بھی کی ہیں،سی پیک کو سبو تاژ کرنے کے لیے700افراد کی ملیشیا بنائی ہوئی ہے۔ الطاف گروپ،طالبان اور کالعدم بلوچ تنظیموں کو اسلحہ اور رقوم فراہم کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت آزاد جموں و کشمیر، گلگت، بلتستان ، بلوچستان اور فاٹا میں قوم پرستی کوہوا دے رہا ہے۔ اس موقع پر دہشت گردوں اور ان کے بھارتی معاونین کی ویڈیوز بھی میڈیا کے نمائندوں کو سنوائی گئیں، حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی متعصب ہندو قیادت نے کبھی پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ اس نے کشمیر اور جونا گڑھ پر بزور طاقت قبضہ کیا۔ پاکستان کے حصے کی رقم روکی۔ پورے ہندوستان اور پنجاب میں بڑے پیمانے پر مسلم کش فسادات کرائے۔ ہندو قیادت کا خیال تھا کہ پاکستان کامیاب پروجیکٹ ثابت نہیں ہوگا اور قائد اعظم چند ماہ یا چند سال میں ہندو قیادت سے درخواست کریں گے کہ پاکستان کو انڈین یونین کا حصہ بنالیں۔ مگر پاکستان بدترین معاشی حالات سے نہ صرف یہ کہ نکل گیا بلکہ اس نے بہت جلد زندگی کے مختلف شعبوں میں بھارت سے بہتر کارکردگی پیش کی۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستان کی معیشت کو اُبھرتی ہوئی معیشت سمجھا جاتا تھا اور ہمارے پانچ سالہ منصوبوں کو مثال کے طور پر سامنے رکھا جاتا تھا۔ لیکن بھارت نے پاکستان کے سلسلے میں اپنے ناپاک عزائم سے کبھی رجوع نہ کیا۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے نے مشرقی پاکستان میں ناانصافیوں، جبر اور ظلم کی انتہا کردی۔ بنگالی ملک کی آبادی کا 56 فی صد تھے مگر 1960ء تک انہیں فوج میں نہیں لیا جاتا تھا۔ 1971ء میں جب بحران پیدا ہوا تو فوج میں بنگالیوں کی نمائندگی 8 سے 10 فی صد تھی، حالاں کہ وہ آبادی کا 56 فی صد تھے۔ پولیس اور سول سروس میں بھی بنگالیوں کی نمائندگی کم تھی۔ چناں چہ بنگالیوں کو بجاطور پر مغربی پاکستان کے حکمران طبقے سے شکایت پیدا ہوئی۔ بدقسمتی سے 1970ء کے انتخابات میں بنگالیوں کی اکثریت کو تسلیم نہ کیا گیا۔ اس صورتِ حال سے بھارت نے بھرپور فائدہ اُٹھایا اور مشرقی پاکستان پر جنگ مسلط کردی۔ نہ صرف یہ بلکہ اس نے مکتی باہنی کے ذریعے مشرقی پاکستان کے معاملات میں مداخلت بھی کی۔ اس صورتِ حال کا نتیجہ سقوط ڈھاکا کی صورت میں برآمد ہوا۔ پاکستان ٹوٹ گیا اور مشرقی پاکستان دنیا کے نقشے پر بنگلادیش بن کر اُبھر آیا۔ یہ بھارت کی بڑی کامیابی تھی اور اس پر بھارت کو مطمئن ہوجانا چاہیے تھا مگر بھارت نے سقوط ڈھاکا کے بعد بچے کھچے پاکستان کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔ اس نے کراچی کے حالات کو دھماکا خیز بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس نے بلوچستان میں مداخلت کی۔ وہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کررہا ہے۔ پاکستان میں کوئی فوجی یا سول حکمران ایسا نہیں گزرا جس نے بھارت کے ساتھ بامعنی مذاکرات کے ذریعے دوطرفہ مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں سیکرٹری خارجہ کی سطح پر مذاکرات کے نو ادوار ہوئے مگر ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ جنرل پرویز مشرف نے آگرہ میں بھارت کے ساتھ مذاکرات کیے اور کشمیر کا ایسا حل تجویز کیا جو کشمیر کو بھارت کے ہاتھ فروخت کرنے کے مترادف تھا، مگر بھارت نے اس حل کو قبول کرنے سے صاف انکار کردیا اور جنرل پرویز آگرہ سے خالی ہاتھ واپس لوٹے۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ بھارت نے جنرل ضیا الحق کے عہد اور بعد کے زمانوں میں کئی بار پاکستان پر حملے کی کوشش کی مگر پاکستان کی ایٹمی صلاحیت نے بھارت کو پاکستان کے خلاف جارحیت سے باز رکھا لیکن بھارت پاکستان کے خلاف ایک خفیہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہ لائن آف کنٹرول پر حالات کو مسلسل کشیدہ بنائے ہوئے ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو اس نے ختم کردیا ہے اور اہل کشمیر پر اس کے مظالم بڑھ گئے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کا حکمران طبقہ بھارت کی دہشت گردی اور جارحانہ عزائم سے نمٹنے میں بری طرح ناکام ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے میں بھارت کے حوالے سے پہل کاری یا Initiatve کی نفسیات موجود نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ہم مسئلہ کشمیر کو بھرپور انداز میں نمایاں کرنے میں بھی ناکام ہیں۔ ہم نے بھارت کے جاسوس کلبھوشن کو پکڑا اور وہ ہماری قید میں ہے۔ خدانخواستہ بھارت نے ہمارا کوئی جاسوس پکڑ لیا ہوتا تو وہ پاکستان کو اب تک دہشت گرد ریاست باور کراچکا ہوتا، مگر ہم بھارت کے جاسوسوں کو بھی اپنا اثاثہ بنانے میں ناکام رہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ ہم ایٹمی قوت ہیں اور ہمارے پاس چھوٹے ایٹم بم بھی موجود ہیں۔ چناں چہ بھارت شدید خواہش کے باوجود بھی ہمارا کچھ بگاڑ نہیں پارہا مگر پاکستان کا حکمران طبقہ پاکستان کے خلاف بھارت کے ہاتھ کو روکنے میں کامیاب نہیں ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ صرف بھارت کے خلاف بیانات جاری کرنے میں لگا رہتا ہے۔ اس سے ثابت ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے بیانات کو بھارت کے خلاف عمل کا متبادل بنالیا ہے لیکن اقبال نے کہا ہے۔
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
یہ حقیقت عیاں ہے کہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور کشمیری کسی بھی قیمت پر بھارت کے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں۔ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی تک بھارت کے خلاف بیانات داغنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ بھارت میں آزادی کی دس بارہ تحریکیں چل رہی ہیں مگر پاکستان کا حکمران طبقہ کہیں بھی بھارت کی گردن دبوچنے پر تیار نہیں۔ آخر پاکستان کے حکمران کب بھارت کو سبق سکھائیں گے اور کب بھارت سے نمٹنے کی اہلیت کا مظاہرہ کریں گے؟ کب آخر کب؟