موت کی امانت

184

پاک فوج کے حق میں تقاریر کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اسلام، فوج اور عدلیہ کے خلاف بات کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ گویا یہ ساری خرافات آپ کی اجازت ہی سے ہو سکتی ہے۔ اس دکھ کا اظہار بھی کیا گیا کہ دیگر اداروں کے خلاف بات کرنا بھی دل آزاری کا مرتکب ہوتا ہے۔ یہ ایک انتہائی تکلیف دہ عمل ہے۔ قوم فوج اور عدلیہ کے خلاف بیانیے کو مسترد کر چکی ہے۔ ایسے لو گ انڈیا کی زبان بولتے ہیں۔ انڈیا کے ایجنڈے پر کام کرتے ہیں۔ یہ انڈیا کے سہولت کار ہیں۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ پاک بھارت کے قیام کا مقصد ہی ایک دوسرے سے دست گریبان کرانا تھا۔ برصغیر کی تقسیم سے اب تک پاکستان اور بھارت ایک دوسرے پر الزام تراشی ہی کر رہے ہیں۔ عوام کے بارے میں نہ بھارت سوچتا ہے اور نہ ہی پاکستان کو توفیق ملی ہے۔
وطن عزیز کا ہر سیاست دان بھارت کو ازلی اور ابدی دشمن قرار دیتا ہے۔ مگر بھارتی نیتائوں سے دوستی کے لیے بے قرار رہتا ہے۔ یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ بھارت قیام پاکستان کا مخالف تھا۔ اور آج بھی اپنی روش پر قائم ہے مگر ہمارے سیاست دان بھارت سے دوستی کی بھیک مانگتے رہتے ہیں۔ بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع نہیں گنواتا مگر پاکستان کے سیاستدان اس سے دوستی کے خواست گار ہیں۔ شاید ہی دنیا میں کوئی ایسا ملک موجود ہو جو قوم کے دشمن کی دوستی کا دم بھرتا ہو۔ اور اس سے میل ملاپ کو مذہبی اور انسانی فریضہ قرار دیتا ہو۔ اور ڈنکے کی چوٹ پر یہ اعلان بھی کرتا ہو کہ جب چاہیں اپنے دشمن کو ہستی سے مٹا سکتے ہیں۔ مگر ہمارا مذہب امن و امان کا درس دیتا ہے اور ہم اس درس کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ پیارے نبی کے پیغام سے کبھی روگردانی نہیں کر سکتے۔یہ ایک ایسا جھوٹ ہے جو شیطان بھی نہیں بول سکتا۔
فوج کے ترجمان نے بھارت کو باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اسلام امن پسند دین ہے جو بھائی چارے کی تلقین کرتا ہے۔ امن اور آشتی سے رہنے کا پیغام دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم بھارت کی دہشت گردی اور بد معاشی کا جواب پیار و محبت سے دیتے ہیں ورنہ۔ ہم چاہیں تو اسے اپنے قدموں تلے روند ڈالیں۔ ہماری مذہبی تعلیم و تربیت کو کمزوری نہ سمجھا جائے ہمارا دین امن و امان کا پیغام دیتا ہے۔ مگر یہ حکم بھی دیتا ہے کہ ظلم و ستم کو نیست و نابود کر دو۔ اور ظالموں کو عبرت کا نشان بنا دو کہ یہی اہل ایمان کا فرض ہے یہی انسانیت کی خدمت ہے انہوں نے بھارت کو باور کرایا ہے کہ پاک فوج اپنے فرائض سے کبھی غافل نہیں ہو سکتی۔ اور نہ کبھی ایسی مجرمانہ غلفت کی مرتکب ہو سکتی ہے۔
موت ہمارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ شہادت ہمارے لیے عمر جاوداں کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمارا ہر دشمن ہمارے عزم اور شہادت کی خواہش سے اچھی طرح واقف ہے۔ اور ہمارے اس جذبے سے خوفزدہ بھی رہتا ہے۔ زندگی موت کی امانت ہے اور ہم امانت میں خیانت کبھی نہیں کرتے اور کوئی بھی اچھا اور نیک انسان امانت میں خیانت کا مرتکب نہیں ہو تا۔ خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ بلکہ مذہب کو نہ ماننے والا نیک فطرت اور انسانیت پر ایمان رکھنے والا امانت میں خیانت کے بارے میں سوچنا بھی انسانیت کی توہین سمجھتا ہے۔
مسلمان کسی بھی برائی میں مبتلا ہو سکتا ہے مگر خائن اور دروغ گو نہیں ہو سکتا۔ ہم جو کہتے ہیں وہ کر کے دکھاتے ہیں اور بھارت کو کئی بار اس کا تجربہ ہو چکا ہے۔ مگر وہ تجربات سے سبق سیکھنا ہی نہیں چاہتا۔ بھارت کے لوگوں کو چاہیے کہ مودی سرکا ر کو سمجھائیں کہ وہ کس طرف جا رہی ہے اور کیا کرنا چاہتی ہے۔ آدمی بے سمت ہو تو بھٹک جاتا ہے۔ بھارتی دانشوروں کو سوچنا چاہیے کہ مودی کیا کرنا چاہتا ہے لوگوں کو ایک روشن مستقبل خواب دکھانے والا دوسروںکے چراغ گل کر کے اپنی آنکھیں میں کیوں چندھیانا چاہتا ہے۔ یوں بھی ہوا بڑی بے رحم اور سفاک ہوتی ہے۔ جب خود سری پر اترتی ہے تو سبھی کے چراغ گل کر دیتی ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ بھارتیوں کا انجام بہت برا ہو گا۔
یہاں یہ وضاحت غیر ضروری نہیں ہو گی کہ بھارت خود کو یہودی سمجھنا چھوڑ دے وہ بہت زیرک اور دور اندیش ہوتے ہیں۔ فہم و فراست میں ان کی مہارت ضرب المثل ہے۔ انہوں نے مشکل ترین حالات میں بھی اپنی قوم کو زندہ رکھا اور شان و شوکت کے ساتھ زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھایا۔ بھارتیوں کی بد نصیبی یہ ہے ویسے ہم خود بھی اس دائرے میں شامل ہیں۔ بھارتیوں کی بد نصیبی یہ بھی ہے کہ وہ کم تولتے ہیں اور زیادہ بولتے ہیں۔ علاوہ ازیں دیانت داری کے ادب و آداب سے بھی ناواقف ہیں۔ شاید ان کی فطرت ہی ایسی ہے۔ یا ان کی کیمسٹری میں کوئی ایسا نقص ہے جو لا علاج ہے۔ بے ایمانی اور بد دیانتی ان کے DNA کا حصہ ہے اور DNA کی خرابی دور کرنے کے لیے آدمی کو اپنے جسم کا سارا خون بہانا پڑتا ہے۔ جو بھارتیوں کے لیے ناممکن ہے۔