سندھ میں سگ گزیدگی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس سے زخمی ہونے کے علاوہ ہلاکتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اس کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس کا نشانہ زیادہ تر بچے بنتے ہیں جبکہ سندھ ہائی کورٹ نے بہت واضح طور پر حکومت سندھ کو حکم دیا تھا کہ آوارہ کتوں کو ختم کیا جائے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت سندھ کے نزدیک کتوں کی زیادہ وقعت ہے۔ انسانی جان کی نہیں۔ ان کتوں کو مارنے، بند کرنے، یا ان کے بارے میں امریکی، ترک یا بیرون ملک کے مختلف ماڈلز پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ گزشتہ برس کے اعداد و شمار کے مطابق 2019ء میں جون کے اختتام تک 92 ہزار افراد کو کتوں نے کاٹا جبکہ 2020ء کی رپورٹس اس سے زیادہ ہولناک ہیں۔ 5 اکتوبر تک کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں کتوں کے کاٹنے کے ڈیڑھ لاکھ واقعات پیش آچکے ہیں۔ جبکہ کراچی اس کا سب سے بڑا نشانہ ہے جہاں 17 ہزار آٹھ سو کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ بسا اوقات لوگ اس کی سرکاری اسپتال کو رپورٹ نہیں دیتے۔ نومبر ہی میں لاڑکانہ میں آوارہ کتوں نے ایک ہی روز میں 7 بچوں سمیت 14 افراد کو کاٹ لیا۔ دادو میں 30 افراد ایک ہی روز نشانہ بنے۔ حیدرآباد میں بھی دو بچوں کو کاٹ کھایا۔ حکومت سندھ اور این جی اوز کی سنگدلی یہ ہے کہ این جی اوز کتوں کو مارنے کو مارنے کو ان کے اوپر ظلم قرار دیتی ہیں۔ اور وزیر صحت عذرا پیچوہو کہتی ہیں کہ لوگ اپنے بچوں کو کتوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے سے منع کریں۔ یہ معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور اس کی سماعت کے دوران کتوں کے کاٹنے کے واقعات تو بڑھ رہے ہیں۔ ان کے خاتمے یا روک تھام کے اقدامات کا کوئی پتا نہیں ہے۔