ری ٹوئٹ کا غیر مجاز مشغلہ؟

153

امریکی سفارت خانہ ایک دور میں ملک میں سیاست کے نین نقش تراشنے میں پیش پیش ہوتا تھا۔ اس عمل کو چھپانے اور پردوں میں مفلوف کرنے کی ضرورت بھی زیادہ محسوس نہیں کی جا تی تھی۔ ملک میں چلنے والی سیاسی تحریکوں میں تجریہ نگار، جوتشی اور پنڈت اس بات پر نظر رکھتے تھے کہ کون سفارت خانے کا چکر کاٹ کر آیا اور اس یاترا کے اس شخص کے لب ولہجے پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس کی باڈی لینگوئج میں کیا فرق آیا ہے۔ اسی سے آنے والے سیاسی موسموں اور رُتوں کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔ جو سیاست دان امریکی سفارت خانے کا چکر کاٹ کر آتا اس کے بارے میں یہی سمجھا جاتا تھا کہ اقتدار کا ہُما اسی کے سر بیٹھے گا۔ سیاسی شخصیات کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے وہ بھی اس بات کو چھپانے کے بجائے عیاں کرنے میں دلچسپی لیتے تھے کیونکہ اس طرح کی ملاقاتوں کے گہرے نفسیاتی اثرات سوسائٹی پر مرتب ہوتے تھے۔ اب شاید وقت بدل گیا ہے۔ ممکن ہے امریکا محتاط ہوگیا ہو یاگمان ہے کہ ہم نے سیاسی ڈرون حملے کی طرح اس رسم وریت کو برا سمجھنا شروع کیا ہو اور اس سے ڈومور کی بُو آرہی ہو، امریکی سفارت خانوں میں ہونے والی ملاقاتوں کی یا تو تشہیر نہیں کی جاتی یا پھر ملاقاتوں کی نوعیت اور انداز بدل گئے ہوں۔ صدر اور وزیر اعظم کی تعیناتی کے لیے امریکی سفارت خانے کا گرین سگنل تو تاریخ کا حصہ ہے مگر جنرل حمید گل کا ایک انٹرویو آج بھی سوشل میڈیا پر محو گردش ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے آرمی چیف کے نام کی منظوری بھی واشنگٹن سے آتی ہے۔ جنرل حمید گل اس گرین سگنل کے ’’مقتول‘‘ تھے کیونکہ انہیں بتایا گیا تھا کہ آرمی چیف کے لیے ان کے نام کی مخالفت امریکی کر رہے ہیں۔ ایسا تھا بھی یا محض ایک سخت گیر شخصیت سے جان چھڑانے کے لیے حکومت نے امریکا کی مخالفت کا عذر ِ لنگ تراشا تھا اس بارے میں حتمی رائے نہیں دی جا سکتی مگر حمید گل پوری شرح صدر کے ساتھ یہ سمجھتے تھے کہ اس معاملے میں امریکا کی رائے مرکزی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔
جنرل مشرف کے دور میں کراچی کے بلدیاتی مسائل بھی امریکی قونصل خانے کی دلچسپی کا مرکز ہوتے تھے۔ جب سے امریکا اور پاکستان کے تزویراتی اختلافات گہرے ہوگئے ہیں تب سے ممکن ہے پاکستان نے اس حوالے سے حساسیت کا رویہ اپنالیا ہو۔ جنرل مشرف کے بعد ملک سے امریکا کے پھیلے ہوئے سسٹم کو جس مشکل سے سمیٹا گیا تھا اس نے پاکستان کو کچھ محتاط کیا۔ امریکا کی چین کے ساتھ کھلی مخاصمت اور پاکستان کا چین کے ساتھ کھڑا ہونے کا فیصلہ اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنانے کا باعث بنا۔ پاکستانی سیاست دانوں کا طریقہ کار بھی شاید اب کچھ تبدیل ہوگیا ہے اور وہ امریکا میں بیٹھ کر براہ راست رابطوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ آصف زرداری ضمانت پر رہا ہو کر بیرون ملک چلے گئے تو دوسال امریکا میں گم اور بظاہر حالات سے لاتعلق رہے۔ بعد میں یہ عقدہ کھلا کہ وہ حسین حقانی کے ذریعے امریکی اسٹیبلشمنٹ کو اس بات پر قائل کرتے رہے کہ جنرل مشرف ان کے کسی کام کا نہیں رہا اب اس نظام کو سیاسی رنگ دے کر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہترین نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ بعد میں امریکی جنرل مشرف کے سر سے دست شفت ہٹاتے چلے گئے اور ایک روز آصف زرداری ہی نے انہیں ایوان اقتدار سے رخصت کر لیا۔
اسلام آباد میں طاقت کی حالیہ کشمکش میں امریکی سفارت خانہ اس وقت موضوع بحث بنا جب مسلم لیگ ن کے راہنما احسن اقبال نے ایک ٹویٹ کیا کہ ٹرمپ کی شکست دنیا کے آمروں کے لیے ایک دھچکا ہے ہمارے پاس بھی ایک ایسا شخص ہے جلد اسے باہر کا راستہ دکھایا جائے گا۔ امریکی سفارت خانے نے احسن اقبال کا یہ ٹویٹ ری ٹویٹ کیا۔ حکومت کے احتجاج پر سفارت خانے نے اس پر معذرت کی اور کہا کہ ہمارے سوشل میڈیا اکائونٹ کا غیر مجاز استعمال ہوا۔ سفارت خانہ سیاسی بیانات ری ٹویٹ یا شیئر نہیں کرتا۔ وفاقی وزیر شیریں مزاری نے امریکی سفارت خانے کی اس معذرت کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ امریکی سفارت خانے کی طرف سے پاکستان کے خالص داخلی سیاسی مسئلے کے حق میں ایک واضح لائن اپنانا اور ایک مخصوص سوچ کے حق میں اپنا وزن ڈالنا مداخلت کے پرانے نازوانداز کی یاد دلاگیا۔ یہ محض شوق ری ٹویٹ نہیں بلکہ اپنا وزن اور ایک مخصوص پلڑے میں ڈال کر عوامی رائے بنانے اور ایک مخصوص نفسیات کو تقویت دینے کا انداز ہے۔ اول تو امریکا کے سرکاری اور سفارتی اداروں کو ٹرمپ کو رخصت کرنے میں اس قدر دلچسپی ہے جو ٹرمپ کے بہت سے الزامات کو درست ثابت کرتا ہے دوسرا یہ کہ پاکستان میں بھی اسی انداز کی رخصتی کا منظر دیکھنے میں بہت جلدی ہے۔ خود امریکا میں ٹرمپ کے رخصت ہونے کے لیے پانچ سال صبر وتحمل سے انتظار کیا گیا اور پاکستان میں جمہوری عمل کو ڈی ریل کرتے ہوئے تبدیلی کی بے تاب تمنا کی چنگاری کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ یہ قطعی غیر سفارتی رویہ ہے۔ اب شاید زمانہ بدل گیا ہے کہ اب اس طرح کے برہنہ اشاروں کا فائدے کے بجائے نقصان ہوتا ہے۔ پہلا نقصان تو یہی ہوا کہ امریکی سفارت خانے کو اپنے ٹویٹر اکائونٹ کے ’’غیر مجاز‘‘ استعمال پر معذرت کرنا پڑی۔ اب انہیں اس معاملے میں مزید احتیاط برتنا پڑے گی۔ آج سے چند برس قبل سیاسی معاملات میں امریکی سفارت خانے کی جو مداخلت میں خوب ہوتی تھی وقت نے اس انداز کی مداخلت اور ’’شوقِ َری ٹویٹ‘‘ کو ناخوب بنادیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے پیمانے اور میعار تیزی سے تبدیل ہو کر رہ گئے ہیں۔ بالخصوص جب سے امریکا نے اپنا پورا وزن اور سارے انڈے اور جھنڈے بھارت کی ٹوکری میں ڈال دیے ہیں اس وقت سے تعلقات کے پرانے پیمانے متروک ہو چکے ہیں۔ اب امریکا کی حمایت کے بلینک چیک کا مطلب پاکستان اور چین کے تعلقات میں سی پیک سمیت بہت سے منصوبوں کو ریورس کرنا ہے اور بھارت کو ایک بڑے علاقائی ملک کے طور پر اس انداز سے راستہ دینا ہے کہ وہ واقعی چین جیسا بڑا ملک دکھائی دے اور اس کے زیر سایہ باقی ملک نیپال اور بھوٹان جیسے نظر آئیں۔